رسائی کے لنکس

'لاپتا افراد' بل کی منظوری: 'چلیں ریاست نے تسلیم تو کیا کہ یہ مسئلہ ہے'


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جبری گمشدگیوں کو سنگین جرم قرار دینے کا ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔

یہ بل ایوانِ زیریں سے دوسری مرتبہ منظور کیا گیا ہے، اس سے قبل جون 2021 میں یہ بل منظور ہونے کے بعد سینیٹ آف پاکستان میں زیرِ بحث نہیں آیا تھا۔

اس وقت کی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کے ایوان پر کہا تھا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے قانون خود لاپتا ہوگیا ہے۔

اس قانون کے مطابق کسی شہری کو جبری طور پر لاپتا کرنا سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں جبری گمشدگی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 'ریاست کے کسی نمائندے یا ایسے فرد جو ریاست کے اختیار، مدد یا رضامندی کے تحت کام کر رہا ہو کے ہاتھوں کسی بھی شخص کی گرفتاری خفیہ رکھنے کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔

بل میں جبری گمشدگی پر عمل کرنے والوں کے علاوہ اس کا حکم دینے یا اس پر اکسانے والوں کو بھی جرم میں ملوث قرار دیا گیا ہے اور اس میں ملوث فرد یا افراد کی بغیر وارنٹ گرفتاری اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کے علاوہ جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

پاکستان میں لاپتا افراد کا معاملہ: لوگ کئی، کہانی ایک
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:59 0:00

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فوجداری قوانین ترمیمی بل 2022ء ایوان میں پیش کیا تو بعد اتحادی جماعتوں نے بل میں شکایت کنندہ پر 5 سال سزا کی شق پر اعتراض اٹھایا۔

اتحادی رہنماؤں کے اعتراض پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل سے مذکورہ شق حذف کرکے بل منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

پاکستان میں جبری طور پر لاپتا ہونے کے واقعات ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے بعد کئی افراد رہا کیے جا چکے ہیں تاہم متعدد افراد اب بھی لاپتا ہیں۔

لاپتا افراد کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خفیہ اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی اداروں نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔

'قانون ملوث اداروں کے خلاف مؤثر ثابت نہیں ہوگا'

انسانی حقوق اور لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ موجودہ قانون ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو گا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) نے جبری لاپتا افراد کے حوالے سے قانونی بل کی منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ پھر زیرِ بحث
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

تنظیم کی سربراہ حنا جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جبری لاپتا افراد کا مسئلہ فوجداری مسئلہ نہیں بلکہ ایسا جرم ہے جو ریاستی سطح پر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون میں ایسی نگرانی کی ضرورت ہے جو سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی ایسی کسی عمل میں ملوث ہونے کی جانچ کرسکے کیوں کہ لاپتا افراد کے زیادہ تر الزامات خفیہ اداروں پر لگائے جاتے ہیں۔

حنا جیلانی نے کہا کہ اگر اداروں کو بری الذمہ کردیا جائے گا تو لاپتا افراد کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت خود کو ایسے معاملات سے لاتعلق کرلیتی ہے اور لاپتاافراد کے اہل خانہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ کس نے لاپتا کیا ہے۔

حنا جیلانی نے کہا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے قانون کا آنا خوش آئند ہے اور اس کے لیے وہ دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن اس کا مقصد اور فوائد اسی صورت حاصل ہوں گے جب خفیہ اداروں کو جواب دہ بنایا جائے گا۔

'ریاست نے تسلیم کیا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ وجود رکھتا ہے'

لاپتا افراد کے حوالے سے کام کرنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی رہنما ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کے ذریعے ریاست اور اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں لاپتا افراد کا مسئلہ موجود ہے اور اسے سنگین جرم بھی قرار دیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قانون سازی ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہوگا ہے بلکہ یہ درست سمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آئین پر عمل نہیں ہوتا تو یہ تو پھر ایک قانون ہے اور دیکھنا ہوگا کہ ریاستی ادارے اور حکومت اس پر کس سنجیدگی سے عمل کرتی ہے۔

ثناء اللہ بلوچ نے بتایا کہ ان کی جماعت نے پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت میں اسی شرط پر شمولیت اختیار کی تھی کہ لاپتا افراد کے معاملے پر قانون سازی کی جائے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ میں بھی لاپتا افراد کے واقعات بڑی رکاوٹ ہیں اور صوبے میں مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔

یاد رہے کہ 2011 میں حکومتِ پاکستان نے لاپتا افراد کی بازیابی اور ذمے داران کے خلاف کارروائی کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے 2018 میں سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا تھا کہ 153 فوجی اہل کار شہریوں کو لاپتا کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔تاہم پاکستانی فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کو تقریباً سات ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے پانچ ہزار کو حل کیا جا چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG