رسائی کے لنکس

لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں، ریفرنسز بدنیتی پر مبنی ہیں، نوازشریف


نواز شریف احتساب عدالت سے باہر آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو
نواز شریف احتساب عدالت سے باہر آ رہے ہیں۔ فائل فوٹو

سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نیب ریفرنسز میں تحقیقاتی ٹیم کو غیر متعلقہ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا۔ سابق وزیراعظم نے 127 میں سے 55 سوالوں کے جواب دے دیئے ہیں۔

نوازشریف کے خاندان کے خلاف لندن فلیٹس ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی جس میں ملزم سابق وزیراعظم نوازشریف کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

پیر کے روز نوازشریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے کل 127 سوالات میں سے 57 سوالوں کا جواب دیا ۔

روسٹرم پر آ کر سوالات کا جوابات دیتے ہوئے نوازشریف نے عدالت کو اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ میری عمر 68 سال ہے اور میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔

لندن فلیٹس

لندن فلیٹس سے متعلق جواب میں قائد پاکستان مسلم لیگ ن نوازشریف نے کہا لندن فلیٹس کا میں کبھی حقیقی یا بینی فشل مالک نہیں رہا۔ گلف سٹیل ملز کا قیام، قرض کا حصول اور شیئر کی فروخت سنی سنائی باتیں ہیں۔

پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے متعلق نوازشریف نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی کے ارکان پر اعتراض تھا، یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا۔ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔ انہوں نے کہا جے آئی ٹی ارکان کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر ہے۔ جے آئی ٹی رکن بلال رسول سابق گورنر پنجاب کے بھانجے ہیں۔ میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان کے ساتھ 2017 کو تصاویر لی گئیں۔ بلال رسول پی ایم ایل این حکومت کے خلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں۔

جے ٹی آئی پر اعتراض

سابق وزیراعظم نے احتساب عدالت میں اپنے بیان میں کہا بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں۔ جے آئی ٹی رکن عامر عزیز بھی جانبدار ہیں۔ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی ہے۔

انہوں نے کہا عامر عزیز مشرف دور میں بھی میری فیملی کے خلاف ریفرنسز کی تحقیقات میں شامل رہے۔ مجھے اپنے خلاف پیش کیے گئے شواہد کی سمجھ آ گئی ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی میں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیر کامران خورشید کو شامل کرنا نامناسب تھا اور اس کا جے آئی ٹی کی کارروائی پر اثر پڑا جبکہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ سے دوچار رہی ہے۔

اپنے بیان کے دوران سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کے دوران آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ملنے والا فری ٹرائل کا حق انہیں نہیں دیا گیا۔

اپنے بیان کے دوران نواز شریف کی جانب سے کہا گیا کہ لندن اپارٹمنٹ سے متعلق ان کے بیٹے حسین نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات سے متعلق وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کو اس کیس میں نہ تو ملزم نامزد کیا گیا نہ ہی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ گلف اسٹیل کے 25 فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق باہمی تعاون کے معاہدے (ایم ایل اے) کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

گلف اسٹیل

گلف اسٹیل سے متعلق جوابات دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا اس کے قیام میں کوئی کردار نہیں۔ مجھے براہ راست علم نہیں کہ گلف اسٹیل کے قیام کے لیے فنڈز کہاں سے آئے۔ تاہم طارق شریف کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی۔

گلف اسٹیل ملز سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ اس کے قیام میں کبھی شامل نہیں رہا۔ گلف اسٹیل مل کا قیام، سرمایہ، آپریشن، قرض کا حصول اور شیئر کی فروخت کی سنی سنائی باتیں ہیں، میں ان تمام کا حصہ نہیں رہا۔

نواز شریف نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو مجھے حراست میں لیا گیا۔ حراست میں لیے جانے کے بعد مجھے سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔ میرے علم میں ہے کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر نامزد کیا۔ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ میرے مرحوم والد نے حسین نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا شیئر ہولڈر نامزد کیا تھا۔

سابق وزیراعظم نے عدالتی سوال نامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دبئی فیکٹری اور العزیزیہ ملز سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ قومی اسمبلی میں تقریر یا قوم سے خطاب میں نہیں کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی سے میرا کوئی تعلق ہے۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز کا اصل یا بے نامی دار مالک نہیں ہوں۔ جب کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیئرر شیئرز سرٹیفکیٹ کبھی میرے تھے نہ میرے پاس رہے۔

انہوں نے کہا کہ5 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا۔ خطاب دبئی فیکٹری، العزیزیہ سمیت مختلف معاہدوں سے متعلق تھا۔ حسین نواز نے جو معلومات فراہم کیں وہ میرے علم میں نہیں تھیں جب کہ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کی حسن نواز وضاحت کر سکتا ہے۔

رابرٹ ریڈلے اور کیلبری فونٹ

نواز شریف نے کہا کہ جس طرح رابرٹ ریڈلے کو دستاویزات بھجوائی گئیں اور عجلت میں رپورٹ تیار ہوئی وہ متعصب ہے۔ رابرٹ ریڈلے گواہی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتا نظر آیا۔ رابرٹ ریڈلے نے غیر ضروری جلد بازی میں رپورٹ تیار کی۔ رابرٹ ریڈلے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری کے لیے کیلبری فونٹ استعمال ہوا۔ ریڈلے کے مطابق کیلبری فونٹ 31 جنوری 2007 تک کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ رابرٹ ریڈلے کے مطابق اس فونٹ کا استعمال اس سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا۔ رابرٹ ریڈلے کا یہ بیان بدنیتی پر مبنی ہے۔ رابرٹ ریڈلے نے اعتراف کیا کہ کیلبری فونٹ 2005 میں دستیاب تھا اور انہوں نے ڈاؤن لوڈ کیا جب کہ رابرٹ ریڈلے کمپیوٹر یا آئی ٹی ماہر نہیں تھا۔

55 سوالات کے جوابات کے بعد عدالت نے مزید کارروائی کے لئے سماعت 22 مئی تک ملتوی کردی ہے جہاں نواز شریف مزید جواب دیں گے۔

پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد عدالتی حکم پر نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، ہلز میٹل اسٹیبلشمنٹ اور لندن میں ایون فیلڈ فلیٹس سے متعلق 3 ریفرنسز دائر کیے تھے۔

اس کے ساتھ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر بھی ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ تاہم اکتوبر 2017 سے اسحٰق ڈار لندن میں مقیم ہیں اور اس ریفرنس کی سماعتوں سے غیر حاضر ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔

ان ریفرنسز کے علاوہ نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئےتھے،جن کی سماعتیں احتساب عدالت اسلام آباد میں جاری ہیں۔

XS
SM
MD
LG