رسائی کے لنکس

ضمانت ختم، نواز شریف کوٹ لکھپت جیل منتقل


پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے علاج کے لیے ملنے والی چھ ہفتے کی رہائی کی مدت مکمل ہونے کے بعد منگل کی رات دوبارہ کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل ہوگئے ہیں۔

نواز شریف کو ریلی کی صورت میں کوٹ لکھپت لایا گیا، جس کی قیادت مریم نواز کر رہی تھیں۔ حمزہ شہباز بھی اُن کے ہمراہ تھے۔

نواز شریف جاتی امرا کی رہائش گاہ سے افطار کے بعد قافلے کی صورت میں نکلے۔
قافلہ تقریباً آٹھ بج کر 20 منٹ پر روانہ ہوا جو رنگ روڈ، فیروز پور روڈ، کچا جیل روڈ اور پیکو روڈ سے ہوتا ہوا کوٹ لکھپت جیل پہنچا۔

قافلے میں سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، رانا تنویر حسین، مشاہد اللہ، محمد زبیر، پرویز رشید، جاوید ہاشمی اور دیگر رہنما شامل تھے، جن کے بقول، نواز شریف اور اُنکی جماعت نے ’’اپنا بیانیہ نہیں بدلا‘‘۔

نواز شریف کو عدالت عظمٰی نے طبی بنیادوں پر سزا معطل کر کے ریلیف دیا تھا، جو منگل، سات مئی کو ختم ہوگیا۔

جیل انتظامیہ نواز شریف کو لینے کے لیے جاتی امرا پہنچی، لیکن انہوں نے خود گرفتاری دینے کو ترجیح دی۔

نواز شریف آٹھ مئی 2019ء کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات 12 بج کر 17 منٹ پر کوٹ لکھپت جیل پہنچے۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز اُنہیں جیل چھوڑ کر واپس روانہ ہو گئے۔

ایک ویڈیو پیغام میں، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے پارٹی کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔ بقول ان کے، ’’رات کے بارہ بج چکے ہیں، لیکن آپ رمضان کے باوجود میرے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں‘‘۔

اس سے قبل، مسلم لیگ (ن) کا ایک اجلاس پیر کو پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز کی زیرِ صدارت لاہور میں ہوا تھا جس میں نواز شریف کو جلوس کی شکل میں کوٹ لکھپت جیل لے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ن لیگ کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بتایا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کو لے جانے والے جلوس کی قیادت کریں گی اور اپنے والد کے ساتھ ہی گاڑی میں موجود ہوں گی جب کہ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نواز شریف کی گاڑی ڈرائیو کریں گے۔

محکمۂ داخلہ پنجاب نے واضح کیا تھا کہ جلوس کی شکل میں جیل جانا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہو گا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری عطاء اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ اُن کی جماعت اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہی نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل لے کر جائے گی۔

ترجمان وزیرِ اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ عدالت نے نواز شریف کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کی تھی۔ عدالتوں سے سزا ملنے پر ریلیاں نکالنے کے بجائے شرمندہ ہونا چاہیے۔ سزا یافتہ مجرم کو جلوس کی شکل میں جیل لانا انوکھی منطق ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم کو ایک احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کیس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی جو وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے تھے۔

تاہم رواں سال مارچ میں عدالتِ عظمٰی نے علاج کی غرض سے انہیں چھ ہفتوں کے لیے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ نواز شریف کی رہائی کی مدت منگل کی رات بارہ بجے ختم ہو گئی۔ عدالت عظمٰی علاج کے لیے رہائی کی مدت میں مزید توسیع کی نواز شریف کی درخواست پہلے ہی مسترد کر چکی تھی۔

XS
SM
MD
LG