رسائی کے لنکس

امریکی اور چینی درآمدات پر عائد نئے ٹیکس نافذ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ عالمی تجارت کے معاملات میں زور زبردستی کر رہا ہے اور دیگر ملکوں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر رہا ہے۔

دنیا کی دو بڑی معیشتوں امریکہ اور چین کی جانب سے ایک دوسرے کی درآمدات پر عائد کیے گئے نئے ٹیکس پیر سے نافذ ہوگئے ہیں۔

نئے ٹیکسوں کے نافذ العمل ہونے کے بعد چین نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ عالمی تجارت کے معاملات میں زور زبردستی کر رہا ہے اور دیگر ملکوں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر رہا ہے۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ پر چین کی اسٹیٹ کونسل نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چین امریکہ کی اس دھونس اور زبردستی کا مقابلہ کرے گا۔

لیکن وائٹ پیپر میں چین کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ تجارتی امور پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ بات چیت باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر ہو تو چین اس کا خیرمقدم کرے گا۔

امریکہ نے چین کی 200 ارب ڈالر مالیت کی درآمدی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد کیے ہیں جن کے جواب میں چین نے بھی 60 ارب ڈالر مالیت کی امریکی درآمدات پر اضافی ٹیکس لگادیے ہیں۔ یہ اضافی ٹیکس پیر سے موثر ہوگئے ہیں۔

تاہم ان اضافی محصولات کی شرح اتنی بلند نہیں ہے جتنا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔

امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر چینی درآمدات پر 10 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے جسے 2018ء کے اختتام تک بڑھا کر 25 فی صد تک لے جایا جائے گا۔

بیجنگ نے ابتدائی طور پر امریکی درآمدات پر 5 سے 10 فی صد ٹیکس عائد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے چینی مصنوعات پر ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا تو وہ بھی اس کا جواب دے گا۔

دونوں ممالک اس سے قبل ایک دوسرے سے درآمد کی جانے والی 50 ارب ڈالر مالیت کی اشیا پر بھی بھاری ٹیکس عائد کرچکے ہیں۔

کاروباری اداروں نے خبردار کیا ہے کہ چینی درآمدات پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ امریکی صارفین کو منتقل ہوگا جنہیں عام استعمال کی کئی ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا موقف ہے کہ چینی مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کا مقصد چین کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ باہمی تجارت میں موجود عدم توازن ختم کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور کرنا ہے۔

امریکی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں عدم توازن کے خاتمے کے علاوہ چین کی حکومت سے تجارت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ہائی ٹیکنالوجی صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔

کئی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے اپنی مصنوعات چین میں تیار کراتی ہیں۔ لیکن چینی حکومت کا موقف ہے کہ وہ ان کمپنیوں کو اپنی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے پر مجبور نہیں کرتی۔

بیجنگ حکومت کا موقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے چین سے اس کی معاشی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کا مطالبہ دراصل چین کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننے سے روکنے کی کوشش ہے جسے خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔

حالیہ تجارتی جنگ شروع ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کے درمیان کئی بار مذاکرات ہو چکے ہیں جن کا تاحال کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

XS
SM
MD
LG