رسائی کے لنکس

کیا نیویارک میں زندگی معمول پر آجائے گی؟


New York
New York

امریکہ میں طبی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگرچہ کئی ریاستوں نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کر کے بعض کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی ہے، مگر کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں اور موت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ بدھ کے روز بھی امریکہ میں کووڈ نائنٹین کے مریضوں کی تعداد بارہ لاکھ سے متجاوز اور اموات اکہتر ہزار سے زیادہ ہیں۔

کیا نیویارک میں زندگی معمول پر آجائے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:53 0:00

اسی دوران مختلف ریاستوں کے گورنر اپنے ہاں لاک ڈاؤن ختم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر رہے ہیں۔

نیویارک امریکہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سرِ فہرست ہے۔ ماہرین اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ نیویارک گنجان آباد ہے، یہاں کے بین الاقوامی ائیرپورٹ کرونا وائرس کے خطرات کے باوجود کھلے رہے، اس کا زیرِ زمین ریل کا نظام یا سب وے سسٹم جلد بند نہ کیا جا سکا۔ اس کی آبادی میں تنوع امریکہ کی باقی ریاستوں سے زیادہ ہے۔

اسی طرح کے دیگر حقائق کرونا وائرس کی وبا میں بھی منتظمین کے آڑے آئے اور نتیجہ یہ کہ امریکہ کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں نیویارک میں کووڈ نائینٹین کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی اور اس حساب سے اموات بھی ہوئیں۔

مگر پھر اس میں کمی دیکھی جانے لگی اور ایک وقت آیا کہ نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے اس امید کا اظہار کیا کہ نیویارک کو مئی کے مہینے کے وسط میں مرحلہ وار کھولا جا سکتا ہے۔

پہلے مرحلے میں تعمیراتی کاروبار اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں کو کام شروع کرنے کی اجازت دی جائے گی اور ریٹیل سٹور بھی کھل جائیں گے، مگر گاہکوں کو اشیا سڑک کنارے مہیا کی جائیں گی، 'کرب سائیڈ پک اپ' کے ذریعے۔

امریکہ کی جن ریاستوں میں کروناوائرس زیادہ پھیلا وہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے اور گورنر بھی ڈیموکریٹ ہیں ان میں نیویارک کے علاوہ کیلفورنیا اور شکاگو ایسی ریاستیں ہیں جہاں کووڈ نائنٹین کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔

ڈاکٹر سہیل چیمہ نیو یارک میں ممتاز ماہرِ نفسیات ہیں اور ریاستی امور پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان ریاستوں میں کاروبار کے مواقع بھی سب سے زیادہ ہیں اور غیر ملکیوں کی آمد و رفت بھی یہاں زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں اسی حساب سے کرونا وائرس کی وباء کی ابتداء میں چین اور یورپی ممالک سے لوگوں کی آمد و رفت بھی یہاں زیادہ رہی۔

نہ صرف بیرونِ ملک سے آنے والوں کی تعداد بلکہ نیو یارک میں عام ٹریفک بھی باقی ملک سے کہیں زیادہ رہتی ہے۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پانچ سو سے زیادہ زیرِ زمین ریل یا سب وے سٹیشن ہیں اور ان میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے چلنے والی اس سروس کی دن رات صفائی کی جارہی ہے اور اسے جراثیم سے پاک کیا جا رہا ہے تاکہ اسے عام لوگوں کیلئے کھولا جائے تو کوئی خطرہ نہ ہو۔

تاہم کووڈ نائنٹین کی وباء کا زور خاص طور پر نیویارک میں لوگوں کیلئے سخت ذہنی دباؤ کا باعث بنا اور اب بھی نیویارکر اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کی ریاست اتنی تاخیر سےکیوں کھل رہی ہے۔ اس کی وجہ ڈاکٹر سہیل کے نزدیک مالی سے زیادہ معاشرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں موسمِ گرما شروع ہو گیا ہے اور اس موسم میں امریکی گھروں سے باہر نکلنے کے مواقعے گنوانا نہیں چاہتے۔

وہ کہتے ہیں مالی طور پر دیکھیں تو کاروبار بند رہنے سے بہت لوگوں کیلئے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ میں ہر شہری کیلئے دو بڑے خرچے ضروری ہیں۔ ایک گھر کا کرایہ یا قرضے کی قسط جسے مورٹگیج کہتے ہیں اور دوسرے کھانے پینے کے اخراجات۔ وہ کہتے ہیں صدر ٹرمپ کے اقتصادی بحالی کے پیکیج نے ان اخراجات میں عام امریکیوں کی کچھ مدد تو کی ہے۔

جہاں تک نیو یارک میں کاروبار کھولنے کاتعلق ہے نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو نے بدھ کے روز اپنی بریفنگ میں بتایا کہ منگل کے روز ہلاکتوں کی تعداد اور ہسپتال میں نئے مریضوں کی آمد کے اعداد و شمار حوصلہ افضاء نہیں ہیں اور جب ان کا باقاعدہ جائزہ لیا گیا تو اندازہ ہوا ہے کہ نئے کیسز میں۶۶ فیصد ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں بند تھے۔ چنانچہ دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ گھر میں رہ کر حفاظتی تدابیر پر پوری طرح عمل کر رہے تھے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ نیویارکرز سخت جان ہیں، سمجھدار ہیں، متحد ہیں، نظم و ضبط رکھتے ہیں اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہر مشکل پر قابو پالیں گے۔

امریکہ کی باقی ریاستوں کی طرح نیویاک میں بھی کاروبار شروع ہو جائے گا مگر کیا زندگی معمول پر آجائے گی؟ اس بارے میں ڈاکٹر سہیل چیمہ کہتے ہیں کہ شاید نہیں۔ کیونکہ معاشرتی فاصلہ اور ماسک پہننے کی ٖضرورت جلد ختم نہیں ہوگی اور لوگ انہیں پابندیوں کے ساتھ اپنی آزادی کے عادی ہو جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG