رسائی کے لنکس

منتظر ہوں کہ سوچی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی مذمت کریں: ملالہ


روہنگیا برادری کی ایک خاتون بنگلہ دیش اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچی ہیں۔ (فائل فوٹو)
روہنگیا برادری کی ایک خاتون بنگلہ دیش اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش پہنچی ہیں۔ (فائل فوٹو)

امن کی نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے حالتِ زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان پر ڈھائے جانے والے مبینہ مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں ملالہ کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی پریشان کن صورتِ حال سے متعلق خبر دیکھتی ہیں تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ روہنگیا برادری کے خلاف تشدد بند کیا جائے۔

"آج ہم نے چھوٹے بچوں کو میانمار کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کی تصاویر دیکھیں۔ ان بچوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا، لیکن پھر بھی ان کے گھروں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔"

روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان گو کہ صدیوں سے اس خطے میں آباد ہیں لیکن میانمار انھیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن تصور کرتے ہوئے نہ تو شہریت دیتا ہے اور نہ ہی شہری حقوق۔

میانمار کی اکثریتی ببودھ آبادی کی طرف سے برسوں سے اس اقلیت کے خلاف تشدد اور قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔

میانمار اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اس کے بقول یہ صورتِ حال نسلی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم کا نتیجہ ہے اور حکام اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی (فائل فوٹو)
ملالہ یوسفزئی (فائل فوٹو)

ملالہ یوسفزئی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ "اگر ان (روہنگیا مسلمانوں) کا وطن میانمار نہیں تو وہ نسلوں سے کہاں رہتے رہے۔۔۔ روہنگیا برادری کو میانمار کی شہریت دی جانی چاہیے جہاں وہ پیدا ہوئے۔"

انھوں نے دیگر ممالک بشمول اپنے ملک پاکستان پر زور دیا کہ وہ بنگلہ دیش کی پیروی کرتے ہوئے تشدد اور دہشت سے فرار ہونے والے روہنگیا خاندانوں کو پناہ، خوراک اور تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔

ملالہ کے بقول وہ کئی برسوں سے اس برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے شرمناک سلوک کی تواتر سے مذمت کرتی آ رہی ہیں اور ان کے بقول، "میں اب بھی منتظر ہوں کہ میری ساتھی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی بھی ایسا ہی کریں۔ روہنگیا مسلمان اور دنیا منتظر ہے۔"

آنگ سان سوچی بھی امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکی ہیں اور دہائیوں بعد میانمار میں بننے والی سول حکومت میں گو کہ ان کے پاس وزارت خارجہ کا قلم دان ہے لیکن حکمران جماعت کی سربراہ ہونے کے ناتے درحقیقت تمام ریاستی امور میں ان کا خاص عمل دخل ہے۔

سوچی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں روہنگیا کے خلاف امتیازی سلوک کے دعوؤں کو مسترد کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG