رسائی کے لنکس

گڑھی خدا بخش کا قبرستان ایک اور بھٹو سے آباد، نصرت بھٹو بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں


گڑھی خدا بخش کا قبرستان ایک اور بھٹو سے آباد، نصرت بھٹو بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں
گڑھی خدا بخش کا قبرستان ایک اور بھٹو سے آباد، نصرت بھٹو بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں

پاکستان کی سابق خاتون اول، ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت کی چیئرپرسن، اپنے شوہر، دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی غیر فطری موت دیکھنے والی بیگم نصرت بھٹو کی خوشیوں اور غموں کی کئی داستانوں پر مشتمل 82 سالہ زندگی کا سفرآخر کارپیر کی شام اختتام کو پہنچا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں کئی المیوں کا مقابلہ کیا۔ وہ زندگی بھر جدوجہد کرتی رہیں یہاں تک کہ انہیں آخری سالوں میں موت سے بھی زندگی کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑی لیکن بلاخر 23 اکتوبر کو وہ موت سے ہار گئیں۔

نشیب و فراز سے بھر پورزندگی کا سفر
ایران کے شہر اصفہان میں23 مارچ 1929 کی صبح کا سورج ایسی کرنوں کے ساتھ نمودار ہوا جس نے پاکستان کی سر زمین پر جمہوریت کو ایک نئی روح پھونکی ۔ نصرت بھٹو کی شکل میں یہ پھول مالدار حریری اصفہانی خاندان کے ایک تاجر جو کراچی میں رہائش پذیر تھے، ان کے آنگن میں کھلا ۔ خوشحال ماحول میں پلنے والی اس دوشیزہ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ اس کے لئے قدرت نے کتنا نشیب و فراز سے بھر پور سفرزندگی تیار کر رکھا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات
نصرت بھٹو کی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی ۔ دونوں 8 ستمبر 1951 کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ملک میں پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان سے اختلافات کے باعث جب ذوالفقار علی بھٹو کو جیل جانا پڑا تو بیگم بھٹو نے اپنی زندگی کی اولین تحریک کی کامیابی سے قیادت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کے بعد اقتدار سنبھالا اور بعد ازاں 1973 میں ملک کے وزیراعظم بن گئے اور 1977 میں اس عہد کا خاتمہ ہوا۔

آمریت کے خلاف سیاسی جدوجہد
اس دوران خاتون اول کے طور پر انہوں نے نئی دنیا دیکھی اورپور ی دنیا میں عزت و شہرت پائی۔ تاہم پانچ جولائی 1977 کو اس وقت کے جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا جس کے بعدانہیں پھرسیاسی میدان میں اترنا پڑا اورانہوں نے آمریت کے خلاف شدید جدوجہد شروع کی۔

شوہر کی پھانسی کا غم
چار اپریل 1979کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تاہم نصرت بھٹو نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ایک جانب تو انہوں نے خود کوسنبھالا تو دوسری جانب وہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کیلئے کوشاں ہو گئیں۔ انتھک جدوجہد کے باعث انہیں 1977 میں پارٹی کی قیادت سونپ دی گئی ۔ اسی سال بے نظیر بھٹو کو تعلیم سے فارغ ہوتے ہی عملی سیاسی زندگی کا آغاز کرنا پڑا اوروہ اپنی والدہ کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے لگیں۔

نظر بندی اور تشدد
بیگم نصرت بھٹو اور پیپلزپارٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر انہیں عوام سے دور رکھنے کیلئے متعدد بار نظر بند بھی کیا گیا ، تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن ان کے حوصلے پست نہ کیے جا سکے ۔ اولاد اور عوام سے دوری نے انہیں نئی ہمت دی اور نیا جذبہ دیا ۔پاکستان کے سینئر صحافی محمود شام کے بقول”14 اگست 1977 کا 70 کلفٹن مجھے کبھی نہیں بھولے گا ، جب بیگم نصرت بھٹو کی عدت ختم ہوئی ۔ بیگم نصرب بھٹو مجسم تصویر غم تھیں ۔ سیاہ دوپٹہ ، سیاہ قمیض شلوار ، ایک کرسی پر رنج و الم میں ڈوبی ہوئیں ۔،

بیگم نصرت بھٹو اپنی صاجزادی بے نظیر بھٹو پر فخر کرتی تھیں کہ وہ اپنے باپ کی تصویر تھیں ۔نظر بندی کے دوران بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر نصرت بھٹو نے ایک خط لکھا تھاجو قارئین کی دلچسپی کے لئے درج ذیل ہے۔ یہ خط محمود شام کی کتاب ”پاکستان پر قربان بے نظیر بھٹو“ سے لیا گیا ہے ۔

نظر بند ماں کا نظر بند بیٹی کے نام خط
بنام بے نظیر بھٹو، سینٹر ل جیل سکھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از : نصرت بھٹو سینٹرل جیل کراچی
میری پیاری بے بی
میرا یہ دوسرا خط ہے جب تک تمہیں ملے گا تمہاری سالگرہ نزدیک آ رہی ہو گی ۔ میری یاداشت کی لہریں مجھے اس لمحے تک لے جا رہی ہیں جب مجھے ڈاکٹر نے انگلینڈ میں جہاں تمہارے والد زیر تعلیم تھے مجھے خوشی خوشی بتایا کہ میں امید سے ہوں ۔ اوہ۔اس وقت ہم کتنے پر جوش اور کتنے خوش تھے ۔ تم ہمارے ہاں پہلی پیدائش تھیں ، پہلا پیار تھیں ۔ اس خوشخبری پر ہم نے خوب خوشیاں منائیں ۔ پھر کراچی میں اوکے اسپتال میں تمہیں جنم دینے کے بعد پوری رات سو نہیں سکی تھی۔ کیونکہ میں بے تاب تھی تمہیں بازوؤں میں لینے کے لئے ، تمہارے سنہرے گھنگریالے بال ایک نظر دیکھنے کے لئے ۔ تمہارا گلاب جیسا چہرہ ، تمہاری خوبصورت لمبی لمبی انگلیوں والے ہاتھ دیکھنے کیلئے ۔ تمہیں دیکھتے ہی میرا دل اچھل پڑا تھا ۔

تمہارے پاپا جب انگلینڈ سے پہنچے ، تم تین ماہ کی تھیں ۔ اپنے والدین کے سامنے وہ شرما رہے تھے لیکن جب ہم تنہا تھے وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے ،پھر انہوں نے تمہارے چہرے کو تمہارے ہاتھوں کو چھوا ، وہ حیرت میں تھے ایسی پیاری بے بی ان کے لئے ایک معجزہ تھا ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ تمہیں کس طرح بازو میں لیں۔ میں نے تمہیں اٹھایا اور ان کو پکڑایا اور بتایا کہ ایک ہاتھ تمہارے سر کے نیچے رکھیں اور ایک تمہارے جسم کے گرد ۔ وہ کہنے لگے کہ تم بالکل ان پر گئی ہو ۔ کتنی مسرت تھی انہیں ۔ وہ تمہیں بازوؤں میں لے کر کمرے میں چکر کاٹتے رہے ۔ میں تفصیل میں نہیں جا سکتی کیونکہ میری آنکھیں ان گزرے ہوئے خوبصورت دنوں کی یاد میں آنسوؤں سے نم ہو رہی ہیں ۔

مجھے یاد ہے جب ذرا ذراتم پہلی بار ایک قدم چلی تھیں اس وقت تم صرف تین سال کی تھیں ۔ مجھے یاد ہے جب ذرا ذرا جس روز تم کوئٹہ میں اپنی پہلی سالگرہ سے ایک روز پہلے بڑی ذہانت سے بولی تھیں اور وہ دن جب تمہیں میں لے کر نرسری اسکول گئی تم صرف ساڑھے تین سال کی تھیں ۔ وہ تمہارا پیارا پیار اننھا منا لباس جو میں سیتی تھی ، کشیدہ کاری کرتی تھی، محبت سے پیار سے ۔ اپنی روزانہ پنج وقتہ نمازوں میں ، ہر نماز کے بعد میں تمہارے مستقبل کے لئے ، صحت کے لئے ، درازی عمر کے لئے ، خوشیوں کے لئے ہاتھ اٹھا لیتی تھی۔

اب 21 جون آ رہی ہے ۔ میں تمہاری پر مسرت سالگرہ پر مبارک باد دیتی ہوں ۔ اللہ تمہیں اور ایسی سالگریں منانے کا موقع دے ۔ میں تمہیں کوئی چھوٹا سا تحفہ بھی نہیں دے سکتی ۔ تمہیں ہلکا سا بوسہ بھی نہیں دے سکتی کیونکہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور 90 روز کے لئے جیلوں میں بند ہیں ۔ مجھے امید ہے میری پیاری بیٹی تم مناسب غذا لے رہی ہو گی اور بہت سا پانی پیتی ہو گی ۔ پھل اور سبزی کھانا نہ بھولنا ۔ میں تمہارے لئے ایک حسین مستقبل ،اپنی دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ اپنی خط کو ختم کرتی ہوں ۔ ۔۔تمہیں ہمیشہ یادکرنے والی ممی“

کینسر
1982 میں انہیں کینسر کامرض لاحق ہو گیا تاہم اس کے باوجود ان کی جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اسی سال اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے انہیں علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی ۔ایک جانب تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا غم برداشت کر رہی تھیں تودوسری جانب اپنی بیماری سے برسرپیکار تھیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کیلئے بھی جدوجہد جاری تھی لیکن ان کے 27 سالہ بیٹے شاہنواز بھٹو بھی1985 میں پر اسرار طور پر فرانس میں اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ ان کی پراسرار موت کا مقدمہ فرانس میں ابھی بھی چل رہا ہے ۔ جنوری 1986 سے مار شل لا کے خاتمے کے بعد جو دور شروع ہوا اس میں نہ صرف سیاسی آزادیاں ملی بلکہ سیاسی خاندانوں کو بھی آزادانہ آمدو رفت کے مواقع ملے ، جس سے اس دکھی خاندان کی کچھ مشکلات کم ہوئیں ۔

بیگم بھٹو کی زندگی میں برسوں بعدایک خوشی کا دن
اس دن کے حوالے سے محمود شام نے اپنی کتاب ”پاکستان پر قربان بے نظیر بھٹو“ میں لکھا ہے۔ ” 18 دسمبر 1987 کا دن بیگم بھٹو کی زندگی میں برسوں بعد ایک خوشی کا دن تھا ۔ جب آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ سندھ کے سیاسی خاندان، زرداری خاندان نے بھٹو خاندان سے بے نظیر کا ہاتھ مانگا تھا ۔ بیگم نصرت بھٹو سے بیگم حاکم علی زرداری نے بات کی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کی پھوپھی منور اسلام بھی اس رشتے پر مصر تھیں ۔

حاکم علی زرداری کی یہ بیگم آصف علی زرداری کی سوتیلی ماں تھیں اور آصف زرداری لندن میں ان ہی کے پاس رہتے تھے ۔ اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو کی بہن بہجت حریری بھی موجود تھیں جنہوں نے مضمحل اور بیمار نصرت بھٹو کو لندن میں موصول کیا تھا اور کئی ماہ تک وہ لمحہ لمحہ ان کے ساتھ رہیں ۔ دوسری بہن جو ان سے بڑی ہیں اور فخری بیگم کی والدہ ہیں وہ بھی اس شادی کے لئے پاکستان آ ئی ہوئی ہیں ۔ اس خاندان کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے ۔

29 جولائی 1988 کو بلاول بھٹو کی پیدائش پر بھی وہ بے حد مسرور رہیں، انتہائی پرمسرت لہجے اور چہرے پر والہانہ مسکراہٹ کے ساتھ اخبار نویسوں سے گفتگو میں بتایا کہ یہ خوشی بھی ہمیں اچانک ملی ہے ، میری اولاد کے ہاں تین بیٹیوں کے بعد بیٹے کی ولادت ہوئی ہے اس پر مجھے بہت خوشی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھٹو خاندان کو پہلا لڑکا ملا ہے اس سے پہلے ہمارے ہاں تینوں لڑکیاں ہوئی ہیں ۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے ہاں فاطمہ ہوئی ، شاہنواز بھٹو شہید کے ہاں بھی بیٹی سسی ہوئی اور صنم کے ہاں آزادی ، یہ تینوں بیرون ملک پیدا ہوئی ہیں ۔“

خاندانی تنازعات
1988 میں وہ وطن واپس آئیں اور لاڑکانہ کی اپنی آبائی نشست سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں کابینہ کا حصہ بھی رہیں ۔ 1993 میں جب بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بنیں تو میر مرتضیٰ بھٹو بھی پاکستان لوٹ آئے ۔ اسی دور میں خاندانی تنازعات نے بھی سر اٹھایا اور بیگم نصرت بھٹو کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ۔ مرتضیٰ بھٹو کی طرف داری پر ماں اور بیٹی کے درمیان فاصلے پیدا ہونے کی خبریں بھی سرگرم رہیں ۔

اس دوران بیگم نصرت بھٹو نے کھل کر اپنے انٹرویوز میں بینظیر بھٹو سے اختلافات کا اظہار کیا۔ اسی دوران 1996 میں 42 سالہ مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ شوہر اور دو بیٹوں کی اس طرح غیر فطری موت نے انہیں اندر سے توڑ دیا اور وہ کینسر کے علاوہ فالج اور الزائمر جیسی خطرناک بیماریوں سے بھی نبرد آزما تھیں اور علاج کیلئے دبئی منتقل ہو گئیں ۔

27 دسمبر 2007کو دو بار وزیراعظم بننے والی بیٹی بے نظیر بھٹو کو بھی راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا ۔ 23 اکتوبر دو ہزار گیارہ کو ’ بیگم نصرت بھٹو کی خوشیوں اور غموں کی کئی کہانیوں پر مشتمل 82 سال کی زندگی کا سفر اختتام پذیر ہو گیا ۔

XS
SM
MD
LG