رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کا مسیحا


کیفے ڈی سی: انوار خان اکمل، سماجی شخصیت
please wait

No media source currently available

0:00 0:22:23 0:00

انوار خان نے بتایا کہ انہوں نے یہ ادارہ خالصتاً محصورینِ پاکستان کی مدد کے لیے ہی قائم کیا تھا کیوں کہ یہ لوگ گزشتہ 45 برسوں سے بنیادی سہولتوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔

انوار خان اکمل ایک پاکستانی امریکی انجینئر ہیں جو گزشتہ 12 برسوں سے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کےلیے کام کر رہے ہیں۔

یہ محصور پاکستانی 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت مشرقی پاکستان کے شہری تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت قبول کرنے کے بجائے واپس پاکستان جانے کو ترجیح دی تھی۔

لیکن ان میں سے بیشتر افراد پاکستان نہیں جاسکے تھے اور آج 45 سال بعد بھی بنگلہ دیش میں قائم ان کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں جو 1971ء کے بعد ان کی عارضی رہائش کے لیے قائم کیے گئے تھے۔

ان کیمپوں میں رہنے والوں کی حالت بہت اچھی نہیں اور یہاں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ایسے میں انوار خان اکمل کی قائم کردہ فلاحی تنظیم 'اوبیٹ ہیلپرز' اور اس جیسے چند دیگر ادارے ہی ان محصورین کے لیے امید کی کرن ہیں جو ان کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

وائس آف امریکہ اردو سروس کے پروگرام 'کیفے ڈی سی' میں میزبان فیض رحمن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انوار خان نے بتایا کہ انہوں نے یہ ادارہ خالصتاً محصورینِ پاکستان کی مدد کے لیے ہی قائم کیا تھا کیوں کہ یہ لوگ گزشتہ 45 برسوں سے بنیادی سہولتوں کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کے بقول انہوں نے 2004ء میں اس سوچ کے ساتھ اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی کہ وہ محصورین کے کسی ایک خاندان کی کفالت کی ذمہ داری قبول کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جب یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا تو اس کا بجٹ 1700 ڈالر تھا جو اب بڑھ کر پانچ لاکھ ڈالرز تک پہنچ چکا ہے جس سے 10 ہزار افراد کی کسی نہ کسی صورت مالی مدد کی جارہی ہے۔

اپنی تنظیم کی سرگرمیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک وہ جن افراد کی مدد کرچکے ہیں ان میں پانچ سے چھ ہزار اسکول اور کالج کی سطح کے طلبہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی تنظیم 800 سے زائد طلبہ کو وظائف دے رہی ہے جب کہ اب تک دو ہزار خاندانوں کی مائیکرو فنانسگ کے ذریعے ان کی مالی معاونت کی ہے۔

انوار خان نے بتایا کہ ان کی تنظیم محصورین کے کیمپوں میں دو طبی مراکز بھی چلارہی ہے جب کہ انہیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ بھی چل رہا ہے۔

اس سوال پر کہ ان کی تنظیم دیگر اداروں کی طرح ان محصورین کی پاکستان میں آبادکاری کو ممکن بنانے کے لیے کچھ کیوں نہیں کرتی، انوار خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کام اس حقیقت کے ساتھ شروع کیا تھا کہ وہ وہی ہدف مقرر کریں جو قابلِ حصول ہو۔

ان کے بقول ہمارے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہم ان مہاجرین کو اپنے تئیں پاکستان لے جائیں اور وہاں آباد کرادیں، اور نہ ہی ہمارے لیے یہ ممکن تھا کہ ہم انہیں بنگلہ دیش کی شہریت دلادیں۔ لیکن ہمارے لیے یہ ممکن تھا کہ ہم انہیں تعلیم دیں اور ان کی موجودہ زندگی کو بہتر بنادیں تاکہ وہ عزت کی زندگی گزار سکیں جس کے لیے ضروری ہے کہ آپ تعلیمِ یافتہ اور ہنر مند ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید اب ان محصورین کی پاکستان واپسی ممکن نہ ہو اور بظاہر بہتر آپشن یہی ہے کہ یہ لوگ اب بنگلہ دیش ہی میں رہیں۔ اور میری رائے میں اگر یہ محصورین اس آپشن کا انتخاب کرتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ وہ بنگلہ دیش پر بوجھ بن کر نہ رہیں بلکہ اس معاشرے کا ایک اثاثہ بنیں۔

انہوں نے کہا کہ آٹھ دس سال قبل تک محصورین مالی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اپنے بچوں کو پرائمری کے بعد تعلیم نہیں دلاتے لیکن ہماری کوششوں کی وجہ سے یہ رجحان تبدیل ہوا ہے کیوں کہ ہم نے اے گریڈ لانے اور بنگلہ دیش کی اچھی یونی ورسٹیوں میں داخلے پانے والے طلبہ کے لیے وظائف کا اعلان کر رکھا ہے اور اس وقت 850 طلبہ ان سے مستفید ہورہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی حالتِ زار کی مزید تفصیل انٹرویو کی اوپر منسلک ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے۔

XS
SM
MD
LG