رسائی کے لنکس

بن لادن کے خلاف آپریشن سے لاعلم تھے: پاکستان


بن لادن کے خلاف آپریشن سے لاعلم تھے: پاکستان
بن لادن کے خلاف آپریشن سے لاعلم تھے: پاکستان

بن لادن کی کمین گاہ سے کچھ ہی دور 23 اپریل کو کاکول اکیڈمی کے پریڈ گراؤنڈ میں تربیتی کورس مکمل کرنے والے فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے فوجیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کے پاکستانی فوج کے قائدین” ملک کو درپیش بیرونی اور اندرونی خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوجیوں نے عظیم قربانیاں اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور جلد ہم فتح سے ہمکنار ہوں گے“۔

پاکستان نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے امریکی اسپیشل فورسز کی کارروائی کے بارے میں اُس کی سیاسی و فوجی قیادت کو پہلے سے عمل نہیں تھا اور اس حوالے سے ذرائع ابلا غ کے خبریں بے بنیاد ہیں۔

وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے سراغ رساں ادارے 2003ء سے ایبٹ آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کی کڑی نگرانی کررہے تھے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی تکنیکی نوعیت کے آپریشن میں آئی ایس آئی نے2004ء میں القاعدہ کے اہم رکن کو گرفتار کیا۔ بیان کے مطابق آئی ایس آئی کے حکام ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں 2009ء سے امریکی سی آئی اے اور دیگر دوست ملکوں کے سراغ رساں اداروں کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں جو گذشتہ ماہ کے وسط تک جاری رہا اور جس میں غیرملکیوں کی القاعدہ کے سربراہ کے گھر میں آمدورفت کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی طرف سے فراہم کی جانے والی معلومات کو استعمال میں لاتے ہوئے اور جدید وبرتر ٹیکنالوجی کی بدولت سی آئی اے اسامہ بن لادن تک پہنچی اور پاکستان کے تعاون کا اعتراف خود صدر براک اوباما اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بھی کیا ہے۔

ایبٹ آباد کے قریب ہی تربیلہ ائیر بیس سے امریکی ہیلی کاپٹروں کی اڑان بھرنے سے متعلق خبروں کو بھی رد کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ اس کام کے لیے پاکستان میں کوئی بھی ہوائی اڈہ امریکہ نے نہ تو استعمال کیا اور نہ ہی امریکی فضائیہ کواس طرح کی کارروائیوں کے لیے پاکستانی فوج کی طرف سے معاونت فراہم کی گئی۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ امریکی ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے اور ایسے مقامات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے جہاں ریڈارنظام کی پہنچ نہیں ہوتی ۔ مزید برآں اسامہ بن لادن کا ٹھکانہ ایک شہری آبادی میں قائم تھا اس لیے اُس کا موازنہ فوجی تنصیبات سے نہیں کیا جاسکتا جن کی حفاظت کے لیے اعلیٰ دفاعی نظام موجود ہوتا ہے۔ بیان میں بظاہر ایبٹ آباد میں پاکستانی فوج کی مرکزی تربیت گاہ ، کاکول ملٹری اکیڈمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ بیرونی دنیا میں پاکستان پرکی جانے والی تنقید کی بنیادی وجہ بھی اس قدر حساس علاقے میں اسامہ بن لادن کی پنا ہ گاہ کی موجودگی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ علاقے میں ہیلی کاپٹروں کی موجودگی کی اطلاعات ملنے کے چند ہی منٹوں میں پاکستانی فضائیہ کے طیارے فضا میں بلند ہوئے اور اس کی تصدیق کے لیے وائٹ ہاؤس کے مشیر جان برننن کے بیان کا حوالہ بھی دیا گیاجس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے ہنگامی اُڑان بھری لیکن دونوں کے درمیان ٹکراؤ نہیں ہوا کیوں کہ اسی امکان کو مد نظر رکھ کر بن لادن کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

اُسامہ بن لادن کے زیراستعمال قلعہ نما پناہ گاہ کے بارے میں جاری بحث کے بارے میں کہا گیا کہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیئے کہ قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے بعض اضلاع میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث بے دخل ہونے والے خاندان ایسے ہی مکانوں میں رہ رہے ہیں جن کی دیواریں بلند ہوں کیوں کہ یہ اُن کی روایات کے مطابق ہیں اور عموماً حفاظتی نکتہ نظر سے بھی وہ اونچی چار دیواری والے گھروں میں رہتے ہیں، اس لیے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

سرکاری بیان میں اسامہ بن لادن کے خاندان کے دیگر افراد کے بارے میں کہا گیا کہ وہ تمام محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور قانون کے مطابق اُن سے سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ مزید برآں اُن میں سے بعض کو طبی امداد کی ضرورت تھی جنہیں بہترین طبی سہولت فراہم کی جارہی ہے اور حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق ان افراد کو اُن کے آبائی ملکوں کے حوالے کیا جائے گا۔

پاکستان کو آگاہ کیے بغیر امریکی فورسزکی اس کارروائی پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں امریکہ سمیت کوئی ملک اس طرح کی مثال کو نہ دوہرائے اور نہ کسی کے لیے یہ(کارروائی) کوئی ضابطہ وقانون بن گئی ہے۔ پاکستانی حکام نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی اس طرح کی کارروائی سے دوطرفہ تعاون متاثر اور اس سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے میں پاکستانی فوج اور اس کی انٹیلی جنس اداروں نے مرکزی کردارادا کیا ہے اور امریکہ سمیت دیگر دوست ممالک کو پاکستان کی فراہم کردہ انھی معلومات کی بنا پر کامیابیاں ملی ہیں۔

اس تفصیلی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے ریاستی ادارے سنجیدہ کوششیں کرتے آئے ہیں اور پاکستان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ کی ہلاکت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے بن لادن کی کمین گاہ سے کچھ ہی دور 23 اپریل کو کاکول اکیڈمی کے پریڈ گراؤنڈ میں تربیتی کورس مکمل کرنے والے فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے فوجیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کے پاکستانی فوج کے قائدین” ملک کو درپیش بیرونی اور اندرونی خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوجیوں نے عظیم قربانیاں اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور جلد ہم فتح سے ہمکنار ہوں گے“۔

لیکن پاکستانی فوج کے سربراہ کے ان دعووں سے محض ایک ہفتے بعد کاکول اکیڈمی کے قریب اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے خلاف امریکی فورسز نے آپریشن کر کے دس سال سے امریکہ کو انتہائی مطلوب القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کردیا۔

XS
SM
MD
LG