رسائی کے لنکس

امریکہ کے معمر ترین شخص کا 112 برس کی عمر میں انتقال


رچرڈ اوورٹن کی مارچ 2017ء میں لی گئی تصویر (فائل فوٹو)
رچرڈ اوورٹن کی مارچ 2017ء میں لی گئی تصویر (فائل فوٹو)

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے رچرڈ اوورٹن نے کہا تھا کہ ان کی طویل عمر کا سہرا خدا کے سر جاتا ہے۔

امریکہ کے معمر ترین شہری اوردوسری جنگِ عظیم کے سب سے طویل العمر سپاہی رچرڈ اوورٹن کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی عمر 112 سال تھی۔

اوورٹن کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کا انتقال جمعرات کی شام ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں معمر شہریوں اور مریضوں کے ایک بحالی مرکز میں ہوا۔

اوورٹن 1906ء میں آسٹن کے قریب ہی پیدا ہوئے تھے اور وہ سو سال کی عمر پار کرنے کے باوجود اتنے صحت مند تھے کہ اپنے علاقے کی معمر خواتین کو خود اپنی گاڑی میں گرجا گھر تک لانے لے جانے کی خدمت انجام دیتے تھے۔

سیاہ فام رچرڈ اوورٹن 30 کے پیٹے میں تھے جب انہوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران خود کو رضاکارانہ طور پر امریکی فوج میں بھرتی کے لیے پیش کیا تھا۔

وہ 1941ء میں امریکہ کی بندرگاہ پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے فوری بعد وہاں پہنچنے والوں میں شامل تھے۔

بعد ازاں وہ امریکی فوج کی اس انجینئر بٹالین کاحصہ بن کر محاذِ جنگ پر بھیج دیے گئے تھے جو تمام کی تمام سیاہ فام اہلکاروں پر مشتمل تھی۔ اس بٹالین کے ساتھ انہوں نے گوام اور جاپان کے جزیرے ایوو جیما میں ہونے والی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

سنہ 2013 میں صدر براک اوباما نے واشنگٹن ڈی سی میں سابق فوجیوں کے دن کے موقع پر ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں رچرڈ اوورٹن کو اعزاز سے نوازا تھا۔

اس اعزاز کے بعد امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے رچرڈ اوورٹن نے کہا تھا کہ ان کی طویل عمر کا سہرا خدا کے سر جاتا ہے۔

ایک سو سات سال 7 سال کی عمر میں دیے جانے والے اس انٹرویو میں اوورٹن نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی بری عادات کا بھی بہت لطف اٹھاتے ہیں اور اس عمر میں بھی شراب اور سگار پیتے ہیں۔

اوورٹن کے انتقال پر ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اپنے ایک تعزیتی بیان میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور ٹیکساس کبھی اوورٹن کی ان خدمات کا قرض نہیں اتار پائیں گے جو انہوں نے امریکی قوم کےلیے انجام دیں۔

XS
SM
MD
LG