رسائی کے لنکس

بات چیت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی ضروری ہیں: حنیف اتمر


دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں نے رواں ماہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورۂ کابل کے دوران طے پانے والے سات نکات پر تبادلۂ خیال کیا۔

پاکستان اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کی رواں ہفتے روس میں ہونے والی میں اعلٰی افغان عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔

روس میں ہونے والی نویں ’رشین سکیورٹی کانفرنس‘ کے موقع پر افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے پاکستانی ہم منصب لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات کی۔

دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں نے رواں ماہ پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورۂ کابل کے دوران طے پانے والے سات نکات پر تبادلۂ خیال کیا۔

حنیف اتمر نے کہا کہ ساتوں نکات پر عمل درآمد کے لیے ایک لائحۂ عمل ہونا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان اعتماد اُسی صورت حقیقت بنتا ہے جب بات چیت کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ اُن کا ملک اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہونے والی بات چیت پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات کرے گا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابل میں افغان قیادت صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ہونے والی ملاقاتوں کے بعد دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان یہ پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔

وزیرِ اعظم عباسی کے دورۂ کابل کے دوران جن سات نکات پر اتفاق ہوا تھا اُن میں پاکستان کی طرف سے افغانوں کی زیرِ قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کی حمایت اور دونوں ممالک کی طرف سے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنا شامل ہے جو مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کو یقینی بنانا، ایک دوسرے کی سرحدوں کی سالمیت کا احترام اور کھلے عام الزام تراشی کی بجائے متعلقہ فورم پر شکایت کو اٹھانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔

جمعرات کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے بھی کہا تھا کہ پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ چھ اپریل کو کابل میں صدر اشرف غنی اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان ملاقات میں بھی اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ اس تنازع کا سب سے قابلِ عمل حل سیاسی مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے طالبان سے کہا تھا کہ وہ افغان حکومت کی طرف سے امن کی دعوت کا مثبت جواب دیں اور بلاتاخیر اس عمل میں شامل ہوں۔

XS
SM
MD
LG