رسائی کے لنکس

پاکستان اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر متفق؛ 'اعتماد کی بحالی میں وقت لگے گا'


پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے ٹیلی فونک رابطے کے بعد دونوں ممالک نے سفارتی روابط بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سفرا کو 26 جنوری تک دوبارہ تعینات کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ رواں ماہ کے آخر میں پاکستان آئیں گے۔

ترجمان پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبدالہیان 29 جنوری کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے اختلافات کے بعد فریقین میں نقصان کم کرنے اور تعلقات بحالی کے لیے سیاسی سوچ موجود تھی جس کی وجہ سے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ لیکن ان حملوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد میں کمی آئی ہے جس کی بحالی میں وقت لگے گا۔

دونوں ممالک کا یہ مشترکہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب گزشتہ ہفتے منگل کی شب ایران کی طرف سے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد جمعرات کی صبح پاکستان کی طرف سے ایران کی حدود کی خلاف ورزی کی گئی اور فریقین نے اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔

پاکستان میں ہونے والے حملے کے دوران دو بچے ہلاک اور تین بچیاں زخمی ہوئیں جب کہ ایران میں کیے جانے والے حملے میں ایران نے نو ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا۔

ان حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا اور پاکستان نے ایران سے سفارتی روابط ختم کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور ایرانی سفیر جو ایران میں موجود تھے، انہیں واپس آنے سے روک دیا گیا تھا۔

پیر کو ترجمان دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے ٹیلی فونک رابطوں میں دونوں ملکوں کے سفرا کو واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور دونوں ملکوں کے سفیر 26 جنوری تک واپس اپنی ذمے داریاں سنبھالنے پہنچ جائیں گے جب کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کی دعوت پر ایرانی وزیرِ خارجہ بھی 29 جنوری کو پاکستان آئیں گے۔

'پاکستان ایران سے تعلقات مزید خراب نہیں کرنا چاہے گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

'تعلقات بحال لیکن اعتماد میں کمی آئی ہے'

تجزیہ کار اور استاد پروفیسر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکوں کے تعلقات میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت اچھے رہے ہیں۔ لیکن ماضی میں ان کے درمیان اختلافات رہے ہیں جن میں پاک امریکہ تعلقات، پاک افغانستان مسائل کی وجہ سے دونوں ملکوں میں اختلاف رہے۔

اُن کے بقول اس سب کے باوجود دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو اس حد تک نہیں بگڑنے دیا کہ بات تصادم تک پہنچ جائے۔

پروفیسر اعجاز خان کہتے ہیں کہ دونوں ممالک نے سفارتی روابط بحال کرنے اور سفرا کو دوبارہ تعینات کرنے کا تو اعلان کیا ہے، لیکن تعلقات معمول پر آنے میں وقت لگے گا۔

اُن کے بقول دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے حوالے سے شکوک و شبہات برقرار رہیں گے اور ایسے میں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی بڑا بن سکتا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا ایسا دوبارہ بھی ہو سکتا ہے؟ تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کچھ بھی ہونا ممکن ہے کیوں کہ اصل مسائل اور تحفظات ابھی بھی موجود ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں مستقبل میں بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آنا ممکن ہے۔

لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان حملوں کے بعد ان میں مزید اضافہ نہیں ہوا اور دونوں ملکوں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا۔ امید ہے کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان موجود اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔

تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ ان حملوں کے فوراً بعد دونوں ملکوں میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ جس قدر جلدی ہو دونوں ملکوں میں تعلقات معمول پر آجائیں، اس کے لیے سیاسی سوچ کی ضرورت تھی اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں طرف یہ سوچ موجود تھی۔

اُن کے بقول میزائل حملوں کے تبادلے سے پورا خطہ عدم استحکام کے خطرے سے دوچار تھا اور پوری دنیا بھی اس معاملے پر پریشان تھی، اس میں خدشہ تھا کہ معاملہ مزید نہ بڑھ جائے۔ اس دوران سازشی تھیوریاں بھی سامنے آنے لگ گئیں کہ یہ حملے دونوں ممالک کی باہمی رضا مندی سے ہوئے۔

اُن کے بقول یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ایران پاکستان پر حملہ کر کے دنیا کو پیغام دے رہا ہے۔ ان حملوں کے بعد یہ سب باتیں بھی کی گئیں۔ لیکن بہرحال دونوں ممالک نے اچھے اقدام کیے اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اب سفیر بھی واپس جا رہے ہیں اور ایرانی وزیرِ خاجہ بھی پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ جب یہ حملے ہوئے تو اس کے بعد چین اور روس کی طرف سے فوری طور پر مثبت ردِعمل سامنے آیا تھا۔ یہ دونوں ملک سب سے پہلے چاہتے تھے کہ تعلقات معمول پر آئیں۔ لیکن اس میں کچھ ممالک جیسے بھارت یہ چاہتا تھا کہ معاملہ مزید بڑھے۔

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ چین کی ایران میں سرمایہ کاری پاکستان سے زیادہ ہے اور اگر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے تو چین کے معاشی اہداف کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ ان حملوں کے فوری بعد چین کی طرف سے جس طرح کے بیانات سامنے آئے ان سے واضح ہے کہ کون سے وہ ملک ہیں جو ان تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش رکھتے تھے۔

فورم

XS
SM
MD
LG