رسائی کے لنکس

آخر چیف جسٹس پارلیمان پر کیوں سوال اٹھا رہے ہیں؟


فائل
فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام لانے پر بحث چل رہی ہے۔

جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں فوری انصاف کی فراہمی سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے شکوے کا اظہار کیا کہ جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی طرح پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو بھی انصاف کے شعبے میں بہتری کے لیے ذمہ داری لینا ہوگی۔

عدلیہ اور پارلیمنٹ کی جانب سے ایک دوسرے کے کردار پر وقتاً فوقتاً سوالات اٹھائے جاتے رہیں ہیں۔ گذشتہ ہفتے ہی پارلیمنٹ کی ججز کی تقرری سے متعلق قائمہ کمیٹی سے حکومتی سینیٹر نعمان وزیر اس بنا پر مستعفی ہوگئے کہ کمیٹی کے اختیارات عدلیہ اپنے پاس لے چکی ہے۔

ماضی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں کئے جانے والے اپنے خطاب میں عدلیہ کو پارلیمانی امور میں مداخلت سے روکا تھا۔

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی سینیٹ میں اپنے ایک پالیسی بیان میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کے تعین پر زور دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی کہتے ہیں مسئلہ عدلیہ اور پارلیمان کا نہیں ہے، بلکہ تمام ریاستی ادارے اپنے آئینی کردار کے مطابق کام انجام نہیں دے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی نے سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے متعدد نئے قوانین اور ترمیمی بل سینیٹ سے متفقہ منظور کروائے۔ رضا ربانی نے کہا کہ چیف جسٹس کے پارلیمان کے کردار سے متعلق بیان سے کسی تنازعے کو جنم نہیں لینا چاہئے۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی ظفر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ موجودہ چیف جسٹس جلد اور سستے انصاف کے لئے قانون میں اصلاحات چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ اگر اس حوالے سے قانون سازی نہیں کرے گی تو عوام کو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور نہیں کی جاسکیں گی۔

سابق وزیر قانون سید افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ کوئی بھی پارلیمنٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ خود انہیں محدود نہ کریں۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ کو مکمل اختیارات ہیں۔ لیکن پارلیمان کے اختیارات عدلیہ استعمال کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کہتے ہیں کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے کردار پر سوال اٹھانے سے اجتناب کرنا چاہئے، اگر ریاست کے آئینی ادارے ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہوگا۔

ان کے مطابق، عدلیہ نے پارلیمان کے کاموں میں مداخلت کی اور اسے کمزور کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

قانون اور پارلیمانی ماہرین کا خیال ہے کہ آئینی اداروں کے درمیان بات چیت کے لئے ایک ایسے فورم کی ضرورت ہے جہاں پیدا ہونے والے مسائل کے حل پر گفت و شنید اور انہیں حل کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاسکے۔

XS
SM
MD
LG