رسائی کے لنکس

سزائے موت کے خاتمے پر بحث وقت کی اہم ضرورت


انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کسی جرم میں سزائے موت ایک انتہائی عمل ہے اور اس سے معاشرے میں بدلے کے رجحان کو تقویت ملے گی جو کہ لاقانونیت کو فروغ دی گی۔

پاکستان کے قانون کے تحت تقریباً دو درجن ایسے جرائم ہیں جن کے مر تکب افراد کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ مذہبی مشائخ کی ایک بڑی تعداد کے مطابق اسلام میں اس سزا پر عمل درآمد صرف قتل اور زمین پر فساد پھیلانے سے متعلق جرائم کی پاداش ہی میں ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر نواز شریف حکومت کو جرائم کی اس فہرست پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا ان کی جماعت حکومت کی اس سلسلے میں معاونت کرنے کو بھی تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق کئی بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کی ہے جس کے تحت سزائے موت کے خاتمے کے فیصلے میں زیادہ تاخیر ممکن نہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سزائے موت کے خاتمے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک میں انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کی حوصلہ افضائی ہوگی اور لاقانونیت میں اضافہ ہوگا۔

’’جس کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ جس کے خاندانوں کو برباد کیا جاتا ہے وہ بھی تو انسان ہیں۔ لیکن جو جرم کرنے والا ہے۔ جو معاشرے کو برباد کرنے والا ہے۔ جو معاشرے کے چہرے کو مسخ کرنے والا ہے اس کے لیے نا جانے کون سی انسانی ہمدردی پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات کے اظہار کے بعد حال ہی میں حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی اٹھانے کے اپنے فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ حکومتی اتحاد میں شامل جمیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان جان اچکزئی کہتے ہیں کہ موت کی سزا کے باوجود معاشرے میں جرائم میں اضافے کی وجہ کمزور عدالتی نظام ہے۔

’’ہم نے دیکھا کہ ہے کئی علاقوں میں جہاں لوگ دیکھتے ہیں کہ مجرموں کو سزا نہیں ملتی یا ریاست کوئی نرمی برتتی ہے وہاں لوگ خود چوروں کو مار دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی فعال دفاع نہیں بنایا۔‘‘

انسانی حقوق کے کارکن ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں سزائے موت کے بارے میں عوامی سطح پر اس پر بحث وقت کی ضرورت ہے۔

’’آپ اتنے لوگوں کو موت کی سزا دے بھی دیں تو جرائم ختم نا ہوں گے کیونکہ جو سوشل جسٹس سسٹم ہے جو معاشرے میں عدم توازن ہے۔ جو استحصال ہے وہ بہت بڑھا ہے۔ وہ لوگوں کی وجہ سے نہیں بڑھا۔ ریاست نے اداروں کو ختم کردیا۔ پولیس کا نظام ختم ہوگیا۔ عدالتیں اس طرح کام نہیں کررہیں جیسے کرنا چاہیے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کسی جرم میں سزائے موت ایک انتہائی عمل ہے اور اس سے معاشرے میں بدلے کے رجحان کو تقویت ملے گی جو کہ لاقانونیت کو فروغ دی گی۔
XS
SM
MD
LG