رسائی کے لنکس

ترکمانستان سے گیس معاہدے پر دستخط کی تیاریاں


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

چار ملکوں کو ملانے والی اس مجوزہ پائپ لائن کا تصور 1990ء کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا مگر افغان خانہ جنگی کے باعث تعمیراتی کام پر پیش رفت نہ ہوسکی کیونکہ تقریباً 1,700 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا 750 کلومیٹر کا حصہ افغانستان سے گزرنا ہے۔

ترکمانستان سے افغانستان کے راستے بھارت اور پاکستان کو قدرتی گیس کی برآمد کے لیے ایک اہم معاہدے پر دستخط رواں ہفتے کیے جائیں گے، جس کے بعد امریکہ کے حمایت یافتہ اس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

ٹیپی نامی مجوزہ پائپ لائن منصوبے سے متعلق قدرتی گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے پر ترکمانستان کے سیاحتی مقام آوازہ میں بدھ کو ہونے والی ایک بین الاقوامی توانائی کانفرنس کے موقع پر دستخط کیے جائیں گے۔ اس معاہدے میں گیس کی قیمت اور حجم کے حوالے سے تفصیلات کو حتمی شکل دی جائے گی۔

اس تقریب میں پاکستان اور بھارت کی نمائندگی دونوں ملکوں کے پیٹرولیم و گیس سے متعلق وزراء کریں گے۔

چار ملکوں کو ملانے والی اس مجوزہ پائپ لائن کا تصور 1990ء کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا مگر افغان خانہ جنگی کے باعث تعمیراتی کام پر پیش رفت نہ ہوسکی کیونکہ تقریباً 1,700 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا 750 کلومیٹر کا حصہ افغانستان سے گزرنا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین معاہدے پر دستخط کی تقریب میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔

اُنھوں نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹیپی پائپ لائن منصوبے کی 2016ء تک تکمیل کے حوالے سے پُر اُمید ہیں کیونکہ اُن کے بقول افغانستان میں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین
ڈاکٹر عاصم حسین

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ اُدھر امن آرہا ہے اور اُمید ہے کہ یہ (منصوبہ مکمل) ہو جائے گا۔ اس کی تکمیل تو 2016ء میں طے ہے۔ اگر اس میں مزید رکاوٹیں نہیں آتی تو انشااللہ تب تک یہ مکمل ہو جائے گا۔‘‘

وفاقی وزیرِ پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ ایران سے قدرتی گیس کی درآمد کے ایک علیحدہ منصوبے پر بھی کام تیزی سے جاری ہے اور اس مجوزہ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے حکومتِ پاکستان نے ٹینڈر بھی جاری کر رکھا ہے جس کے نتائج کا ابھی انتظار ہے۔

لیکن پاک ایران منصوبے کی امریکہ کی طرف سے مخالفت کو عاصم حسین نے ایک بار پھر مسترد کر دیا۔

’’پتہ نہیں، مجھے نہیں پتہ۔ جس چیز کی ملک میں ضرورت ہے وہ چیز ہمیں ضرورت ہے اور ہمیں اُس (امریکی مخالفت) سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘

ٹیپی پائپ لائن پر لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور اس کی تعمیر کا کام چار سے پانچ سال کے عرصے میں مکمل ہوگا۔

ترکمانستان سے شروع ہونے والی مجوزہ پائپ لائن کی تعمیر کے لیے افغانستان میں دو راستے تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مغربی ہرات صوبے سے شروع ہو کر ہلمند اور قندھار کے راستے پاکستان کے بلوچستان صوبے میں داخل ہوتا ہے۔

مگر افغانستان کے ہلمند اور قندھار صوبوں میں طالبان جنجگوؤں کا اثر و رسوخ ابھی قائم ہے جب کہ بلوچستان میں سرکاری تنصیبات پر علیحدگی پسندوں کے حملے پاکستانی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

ٹیپی پائپ لائن کا دوسرا راستہ شمالی افغانستان سے براستہ کابل پاکستان کے خیبر پختون خواہ صوبے میں داخل ہو کر پنجاب کے راستے بھارت کی سرحد تک پہنچتا ہے۔

یہ تمام علاقے نسبتاً محفوظ سمجھے جاتے ہیں اور وزیرِ پیٹرولیم نے وی او اے سے گفتگو میں بھی اشارہ دیا ہے کہ پائپ لائن بھچانے کے لیے اسی روٹ کو اپنایا جائے گا کیوں کہ ’’ٹیپی بلوچستان سے نہیں گزر رہی‘‘۔

گزشتہ ہفتے بھارت کی کابینہ نے سرکاری ادارے گیل لمیٹڈ کو ترکمانستان سے قدرتی گیس کی خریداری کی اجازت دی تھی، جس کے بعد مختلف وجوحات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہونے والے ٹیپی منصوبے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

سترہ مئی کو اپنے بیان میں بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ مجوزہ پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد 2018ء میں اس کے ذریعے ترکمانستان کے یلوتان اور اس کے ارگرد علاقوں سے گیس کی درآمد شروع ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG