رسائی کے لنکس

مچھ واقعہ: حکومتی نمائندوں اور دھرنا قائدین کے درمیان مذاکرات ناکام


مچھ واقعے کے خلاف کراچی اور اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرے جاری ہیں۔
مچھ واقعے کے خلاف کراچی اور اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرے جاری ہیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مچھ میں 11 کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی میتوں کے ہمراہ مغربی بائی پاس پر دھرنا چوتھے روز بھی جاری ہے۔ دھرنا عمائدین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان بدھ کو ہونے والے مذاکرات بھی ناکام ہو گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور زلفی بخاری کوئٹہ پہنچے اور انہوں نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ دھرنا عمائدین سے ملاقات کی۔

بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران علی حیدر زیدی نے کہا کہ "ہماری ہاتھ جوڑ کے گزارش ہے کہ معاملے کو کسی چیز سے مشروط نہ کریں اور یہ مطالبہ نہ رکھیں کہ وزیرِ اعظم آئیں گے تو میتوں کی تدفین کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم سے بات ہوئی ہے اور وہ کوئٹہ ضرور آئیں گے لیکن جو لوگ قتل ہوئے ہیں انہیں دفنانا چاہیے۔

علی زیدی کا کہنا تھا کہ چند روز قبل بلوچستان میں فوج کے جوانوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ پاکستان کے خارجی دشمن اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔

لواحقین نے وزرا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش رد کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جلد ان کے پاس تعزیت کے لیے آئیں گے۔

مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے حکومت کے سامنے سات مطالبات رکھے ہیں جن میں مچھ واقعے میں ملوث افراد کی فی الفور گرفتاری اور نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خاتمے کا مطالبہ سرِ فہرست ہے۔

دھرنے کے شرکا نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حکومت مچھ، زیارت، تفتان اور کراچی کی قومی شاہراہوں پر سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کرے۔

ہزارہ برادری کے عمائدین نے مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو فی الفور معاوضے کی ادائیگی، تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیٹی کے قیام، تعلیمی اداروں اور تجارتی مراکز میں ہزارہ برادری کے افراد کی سیکیورٹی یقینی بنانے اور لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

دھرنے میں شامل عمائدین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ صوبائی حکومت، ان کے خیال میں، چوںکہ عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے اس لیے بلوچستان کے تمام وزرا اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں۔

دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم عمران خان خود کوئٹہ آ کر لواحقین کی داد رسی نہیں کرتے، اس وقت تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔

قبلِ ازیں حکومت نے واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو صوبائی حکومت کی جانب سے 15 لاکھ جب کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 10، 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان کو مچھ واقعے اور اس کے بعد کی صورتِ حال پر بریفنگ دی تھی۔ ​

بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد لواحقین نے کوئٹہ میں مغربی بائی پاس پر احتجاجی دھرنا دیا ہوا ہے اور ہلاک شدگان کے قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کان کنوں کے قتل کے واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش قبول کرچکی ہے۔

مچھ واقعے کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج

مچھ میں گیارہ کان کنوں کے قتل کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

کراچی کے نو مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں جب کہ مرکزی دھرنا نمائش چورنگی پر دیا گیا ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہیں۔

دھرنوں کے باعث کراچی میں ٹریفک کا نظام متاثر ہے اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG