رسائی کے لنکس

کرونا ویکسین کی خریداری اوپن پالیسی پر ہو گی: ڈاکٹر عطاالرحمن


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمن کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کی خریداری کے لیے پاکستان کی اوپن پالیسی ہے۔ ویکسین خریداری کے لیے فنڈز مسئلہ نہیں ہیں۔ ہم ایسی ویکسین خریدنا چاہتے ہیں جو مؤثر ہو اور وائرس کا پھیلاؤ روک سکے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن کا کہنا تھا کہ ابھی ویکسینز کے ٹرائل جاری ہیں اور امکان یہ ہے کہ یہ ویکسین پاکستان میں آئندہ سال ستمبر تک ہی آ سکے گی۔

دوسری جانب حکومت نے عالمی اداروں سے کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین خریدنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کے لیے 100 ملین ڈالر مختص کر دیے ہیں۔

ویکسین کی خریداری اوپن پالیسی کے تحت ہو گی

انہوں نے کہا کہ ویکسن کی خریداری کے لیے پاکستان اوپن پالیسی کے تحت کام کر رہا ہے اور ہم اس ویکیسن کی طرف جائیں گے، جو مؤثر ہونے کے ساتھ کم قیمت ہو اور باآسانی دستیاب ہو۔ جن ویکسینز کے رزلٹس سب سے بہتر ہوں گے، وہ خریدی جائیں گی۔ ابھی یہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ ویکسین کس کمپنی سے خریدی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت چین کی دو کمپنیوں کے ساتھ ٹرائل ہو رہے ہیں، جو انسینو بائیو اور سینو فارما ہیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہم کئی کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، لیکن ویکسین مؤثر ہونا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ویکسین کس کمپنی سے خریدی جائے گی۔

ویکسین آنے میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عطاالرحمن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ابھی ویکسین مارکیٹ میں آنے میں کافی وقت پڑا ہے، کیونکہ دنیا کی کئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹیز نے ابھی تک ویکسین کی منظوری نہیں دی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ سال ستمبر سے دسمبر تک ہی ویکسین دستیاب ہو سکے گی۔

اس کے علاوہ اس حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں کہ ویکسین کی کتنی خوراکوں کی ضرورت ہو گی۔ کتنے عرصے کے بعد اسے دوبارہ لگوانے کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح کے کئی اور سوالوں کے ابھی تک جواب موجود نہیں ہیں۔

سب سے پہلے ویکسین کسے ملنی چاہیے؟

ڈاکٹر عطاالرحمن کا کہنا تھا کہ ان کا مشورہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ویکسین ہیلتھ ورکر کو دینی چاہیے۔

ان کے بعد 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو اور پھر باقی لوگوں کو یہ ویکسین فراہم کی جائے۔

کچھ ویکیسن کمپیناں شارٹ لسٹ کر لی گئی ہیں: فیصل سلطان

دوسری جانب پاکستان کی وفاقی کابینہ نے عالمی اداروں سے کرونا ویکسین خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ پاکستان میں کرونا کی ویکسین کب آئے گی، لیکن ہمیں توقع ہے کہ 2021 کی پہلی سہ ماہی میں ویکسین کی پہلی کھیپ دستیاب ہو سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کرونا وائرس کی پہلی لہر ہر کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جسے امریکہ سمیت دنیا بھر نے سراہا۔ کرونا کی دوسری لہر پر قابو پانے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کیے جانے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم وہی ویکسین لیں گے جس کے ٹرائلز لازمی طور پر ہو چکے ہوں۔ ویکسین کی خرید کے لیے کابینہ کی منظوری سے 150 ملین ڈالر کی رقم رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین کی منظوری کے سلسلے میں 7 نکات کا خیال رکھا گیا ہے اور کچھ کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کرنے کے بعد ان کے ساتھ باضابطہ ابتدائی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ویکسین کی تقسیم میں شفافیت کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی گئی۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی فراہمی میں ان لوگوں کو ترجیج دی جائے گی جو کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں یا جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔

کرونا کی صورت حال

پاکستان میں عالمی وبا کے مریضوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر مثبت کیسز کی شرح 6 فیصد ہے، جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میرپور میں یہ شرح 20.62 ہے، جو سب سے بلند ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 24 گھںٹوں میں 68 مریض کرونا سے ہلاک ہوئے جب کہ 2458 نئے کیسز سامنے آئے، جس کے بعد ایکٹو کیسز کی تعداد 49 ہزار سے بڑھ گئی۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کرونا کے مثبت کیسز کی شرح 6 فیصد ہو گئی ہے جب کہ گزشتہ روز یہ شرح 8.53 فیصد تھی۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مثبت کیسز کی مجموعی شرح 14.5 فیصد، پنجاب میں 3.05، سندھ میں 14.01، بلوچستان میں 9.4، خیبر پختونخوا میں 3.08، اسلام آباد میں 4.3 اور گلگت بلتستان میں 2.06 فیصد ہے۔

اگر شہروں پر نظر ڈالی جائے تو پشاور میں مثبت کیسز کی شرح 19.58، حیدرآباد میں 19.03، لاہور میں 3.19، راولپنڈی 9.27، فیصل آباد 9.25، کراچی میں 13.86، کوئٹہ میں 10.76 فیصد اور ملتان میں 10.66 فیصد ہے۔

این سی او سی کے مطابق ملک بھر میں کرونا کے ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ تعداد 2165 ہے۔ پنجاب میں 467،سندھ 696،خیبر پختونخوا 470، بلوچستان میں 17، اسلام آباد میں 323 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 28 اور گلگت بلتستان میں 3 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

اس وقت کرونا کے 282 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں جن میں لاہور میں 63، ملتان 41، راولپنڈی 26، فیصل آباد میں 4، کراچی 62، پشاور میں 39، اسلام آباد میں 45 اور مظفر آباد میں 2 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔

XS
SM
MD
LG