رسائی کے لنکس

پاکستان میں میڈیا اور آزادیٔ اظہار کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایک حالیہ رپورٹ میں اس بے خوفی کو اجاگر کیا ہے جس کے ساتھ صحافیوں اور انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے۔  ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور حتیٰ کہ انہیں زبردستی غائب کیا جاتا ہے۔

پاکستان پریس کی آزادیوں سے متعلق ایک ملے جلے ریکارڈ کا حامل ہے۔ وہاں اگرچہ میڈیا موثر ہے اور بہت سے ٹی وی نیوز چینلز موجود ہیں۔ تاہم وہاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر اکثر صحافیوں کو دھمکاتے اور ہراساں کرتے رہتے ہیں ۔گزشتہ سال سے اب تک ریاستی عناصر کی جانب سے خصوصي طور پر پاکستان کی طاقت ور فوج یا انٹیلی جینس اداروں کے خلاف تنقید کرنے والوں کے خلاف ہراساں کیے جانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے جب صحافی ماروی سرمد اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعطيل سے گھر واپس آئیں تو وہ اپنے گھر کو تتر بتر پا کر پریشان ہو گئیں ۔ جب تک انہوں نے یہ نہیں دیکھ لیا کہ ان کی بیشتر قیمتی اشیا مثلاً گھڑیوں اور زیورات درازوں سے باہر نہیں نکالے گئے تھے ۔اور انہوں نے اپنے دو لیپ ٹاپ، ایک فون اور کچھ سفری دستاویزات کو غائب نہیں پا یا تھا وہ اسی خدشے میں مبتلا رہیں کہ ان کے گھر میں کوئی چوری یا ڈاکہ ہوا ہے۔

ان کے لیے یہ صورت حال پریشان کن حد تک مانوس تھی۔ ان کے ساتھ اسی انداز کی صورت حال تیسری بار پیش آئی تھی۔

ماروی نے کہا کہ وہ انسانی حقوق کےکیسز کے بارے میں میری فائلیں لے گئے ہیں ۔ وہ صرف وہ لیپ ٹاپ لے گئے ہیں جن میں تازہ ڈیٹا تھا۔ اسی طرح انہوں نے میرے وائس ریکارڈر کو اچھی طر ح چیک کیا ۔ ایسے کون سے چور ہوتے ہیں جو صرف ڈیٹا اور دستاویزات میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

سرمد فوج اور انتہا پسند گروپس کی ایک معروف نقاد ہیں ۔ پاکستان کے انسانی حقوق کے خود مختار کمشن کے مطابق ان دنوں جو کوئی بھی ریاست پر تنقید کرتا ہے اسے مبینہ طور پر سیکیورٹی کے اداروں کی جانب سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں صحافی ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہراساں کیے جانے واقعات کے عادی ہیں تاہم گزشتہ سال سے ان واقعات کی شدت اور تعداد میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستان ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ایک حالیہ رپورٹ میں اس بے خوفی کو اجاگر کیا ہے جس کے ساتھ صحافیوں اور انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے۔ ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور حتیٰ کہ انہیں زبردستی غائب کیا جاتا ہے۔

اخباری کالم نگاروں کی جانب سے اب کھلم کھلا اداراتی تبصروں پر سینسر شپ کی شکایات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے سب سے پرانے انگریزی ی اخبار ڈان نے ایک بیان شائع کیا جس میں یہ شکایت کی گئی کہ عہدے داروں نے ملک کے مختلف حصوں کے اخبار فروشوں کو دھمکایا ہے اور اخبار کی تقسیم میں خلل اندازی کی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے 24 نیوز ایچ ڈی چینل پر بات کرتے ہوئے کچھ صحافیوں پر ریاست مخالف عناصر کا یرغمالی بننے کا الزام لگایا ہے۔

دباؤ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ایک ایڈو وکیسی گروپ (Media Matters for Democracy) میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان کے 88 فیصد صحافی خود سے سینسر کر رہے ہیں ۔

آزادی تقریر کے علمبردار ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک انہیں کوئی مثبت رد عمل نہیں ملا ہے۔

ا سی دوران سرمد اور ان کے خاندان کو یہ تشویش لاحق ہے کہ انہیں اور کتنی بار اپنے گھر کے سامان کو تتر بتر کیے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا ہو گا اور مزید کتنی بار بکھرے ہوئے سامان کو سمیٹنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG