رسائی کے لنکس

وزیراعظم کے حق میں متفقہ قرار داد منظور


منظور کی گئی قرار داد میں کچھ سیاسی قائدین کی جانب سے اراکین پارلیمان اور وزیراعظم کے خلاف ’توہین آمیز زبان‘ کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی۔

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں جمعرات کو ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا کیا کہ احتجاج کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم کے استعفے اور اسمبلی کی تحلیل کے مطالبے کو مسترد کیا جائے۔

نواز شریف انتظامیہ کے اتحادی پختوں قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کی طرف سے پیش کردہ قرارداد میں تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک اور دیگر چند سیاسی جماعتوں کے اس مطالبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے تقاریر میں پارلیمان اور وزیراعظم کے لیے ’’توہین آمیز زبان‘‘ کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی۔

قرارداد پڑھتے ہوئے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ ایوان آئین کی بالاستی اور پارلیمان کی خود مختاری کو برقرار رکھنے کا عہد کرتا ہے۔

قرارداد کے پیش ہونے کے فوراً بعد ایوان میں موجود تمام اراکین نے اسے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف بھی موجود تھے جو کہ گزشتہ تین روز سے متواتر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرہے ہیں۔

یہ قرارداد ایک ایسے وقت سامنے آئی جب حکومت کی ایک اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے ایوان زیریں میں کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں واضح بیان دیں کہ موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا وزیراعظم کے استعفے کو خارج امکان قرار دیتے ہوئے کہنا تھا۔

’’وزیراعظم کو منتخب کرنے والے ہم ہیں۔ یہ قومی اسمبلی ہے اور آج کی قرارداد ان پر اعتماد کا ووٹ تھا۔ اس کے بعد ان سے توقع کرنا کہ وہ کہیں، کیوں وہ کہیں؟ 38 لوگوں کے مقابلے میں 300 سے زائد ووٹ حاصل کرنے والا وزیراعظم کہے کہ میں نہیں جارہا، کیوں؟‘‘

احتحاج کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مستعفی ہوئے بغیر حکومت سے مذاکرات آگے بڑھنا مشکل ہے۔ تاہم خواجہ آصف کا کہنا تھا۔

’’یہ دستور ہے فریقین پوزیشنز لیتے ہیں اور پھر مذاکرات اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ ان پوزیشنز میں کوئی لچک پیدا ہو اور ایسا حل ڈھونڈا جائے جس میں سب کی فیس سیونگ ہو۔‘‘

جمعرات کو وزیراعظم نے صدر ممنون حسین سے بھی ملاقات کی جس میں سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے اس سیاسی بحران کو حل کرنے پر زور دیتی آئی ہیں۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا۔

’’کسی کے مطالبات کوئی بھی ہوں انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہے۔ ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کو دھکا کس نے دیا۔ کل تو مجمعے میں تین یا ساڑھے تین ہزار لوگ تھے تو انہوں نے بھی اپنا فیصلہ دے دیا۔‘‘

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات نا ہونے اور لاہور میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے سیاسی کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ پارلیمان کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے موجودہ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے فوجی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG