رسائی کے لنکس

'ہماری بات نہیں سنی جا رہی'


جنوبی صوبہٴ سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبا کا ایک گروپ صوبے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بدھ کو دوسرے روز بھی اسلام آباد میں اپنے احتجاجی دھرنے میں بھوک ہڑتال کیے بیٹھا رہا اور اس کا کہنا ہے کہ اگر اس کے مطالبات پر کان نہ دھرے گئے تو یہ احتجاج وسعت بھی اختیار کر سکتا ہے۔

رواں سال کے اوائل میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی پشتونوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی جو دیکھتے ہی دیکھتے 'پشتون تحفظ تحریک' کی شکل میں اب زور پکڑ چکی ہے۔

سندھی طلبا کے اس احتجاج میں شامل قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم ثنا اللہ امان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں صوبے کے مختلف علاقوں سے مبینہ طور پر 140 سے زائد افراد جبری طور پر لاپتا ہیں ’’اور، ان کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی نہ صرف بات نہیں سنی جا رہی بلکہ ان کے ساتھ ناروا سلوک دیکھنے میں آ رہا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، "146 لوگ (لاپتا) ہیں اور جتنی ہماری تحقیق ہے ہم جانتے ہیں کہ وہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن، اگر ہیں بھی تو آئین آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ انھیں عدالتوں میں پیش کریں اور کارروائی کر کے انھیں سزا دیں۔"

رواں ہفتے ہی سندھ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی میں احتجاج کرنے والوں پر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے مبینہ طور پر طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔

اس دھڑے میں شامل مٹھی بھر طلبا شدید گرم موسم میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔

اس بارے میں پوچھے جانے پر ثنااللہ امان نے بتایا کہ انتظامیہ نے ان کا کیمپ اکھاڑ دیا ہے اور وہ اس شدید گرمی میں بغیر سائے کے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

گزشتہ رات پشتون تحفظ تحریک کے سرکردہ رہنما منظور پشتین ان طلبا سے اظہار یکجہتی کے لیے آئے تھے جس کے بعد انتظامیہ کا رویہ ان طلبا کے ساتھ "سخت" ہو گیا۔

ثنا اللہ نے کہا کہ انھیں بھی یہی جواز دیا جا رہا ہے کہ "ریاست مخالف لوگ آپ کے پاس آ رہے ہیں آپ انھیں روکیں۔ تو ہماری بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی ریاست مخالف ہے تو سے آپ گرفتار کریں ہمارے ساتھ یہاں جو ہمدردی کرنے آئے گا، ہم سب ایک ہی ریاست کے لوگ ہیں ہمارا درد ایک ہے تو پشتین آئے یا کوئی اور ہم تو اسے خوش آمدید کہیں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ان کی بات میڈیا پر بھی نہیں چلائی جا رہی ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی عہدیدار ان کے پاس آیا ہے۔ لہذا، جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

دھرنے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود پولیس اور انتظامیہ کے عہدیداروں سے طلبا کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں جب دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ بغیر اجازت کے احتجاج کر رہے ہیں اور حکام نے انھیں پرامن طریقے سے منتشر ہونے کا کہہ رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG