رسائی کے لنکس

زاہد حامد کے خلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں ہو گا: معاہدہ


تحریکِ لبیک کے سربراہ خادم رضوی
تحریکِ لبیک کے سربراہ خادم رضوی

بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ انتہائی نازک معاملہ ہے اور سابق وزیر قانون کی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے اہم راستے ’فیض آباد انٹرچینج‘ پر گزشتہ تین ہفتوں سے جاری دھرنا وزیر قانون زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے بعد ختم کر دیا گیا۔

سیاسی و مذہبی جماعت تحریک لبیک کی قیادت میں دیئے گئے اس دھرنے کے قائدین کا الزام تھا کہ ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں مبینہ تبدیلی میں زاہد حامد کا کردار تھا اور اُنھیں منصب سے برطرف کیا جائے۔

لیکن حکومت کی طرف سے شروع میں یہ موقف اپنایا گیا کہ زاہد حامد کا حلف نامے میں مبینہ تبدیلی میں کوئی کردار نہیں تھا اور حکام کے بقول ایک ’کلیریکل‘ غلطی ہوئی تھی جسے دور کر دیا گیا ہے۔

تاہم مظاہرین اپنے موقف پر قائم رہے اور بالاآخر پرتشدد مظاہروں کے بعد پیر کو فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی نمائندہ ٹیم کی کوششوں سے ایک معاہدہ طے پایا گیا۔

جس پر وزیر قانون کے استعفے کے بعد مظاہرین کی قیادت نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اگرچہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی پہلی ہی شق میں یہ واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک زاہد حامد کے خلاف کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔

لیکن اس باوجود بعض حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ انتہائی نازک معاملہ ہے اور سابق وزیر قانون کی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ مظاہرین کے خلاف اسلام آباد میں حکومت کی طرف سے کارروائی کے بعدمشتعل افراد نے سیالکوٹ کے قریب زاہد حامد کے آبائی گھر پر ہفتہ کو دھاوا بھول تھا، تاہم اُس وقت زاہد حامد اور اُن کے اہل وہاں موجود نہیں تھے۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مستعفی وزیر قانون کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

’’جی بالکل (زاہد حامد کو خطرہ ہو سکتا ہے)، اس کی وجہ یہ ہے جب بھی سیاسی مقاصد کے لیے مذہب استعمال ہوا ہے، اس کا نتیجہ ہمیشہ انتشار اور لا اینڈ آرڈر کی صورت میں پیدا ہوا ہے ایسے بہت سے واقعات ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔‘‘

اپنے منصب سے استعفیٰ دینے سے قبل زاہد حامد کا ایک ویڈیو بیان اتوار کو سوشل میڈیا پر سامنے آیا تھا جس میں اُنھوں نے ختم نبوت کے قانون پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کسی احمدی، لاہوری یا قادیانی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ختم نبوت کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے دباؤ میں آ کر بالآخر مظاہرین کا مطالبہ مان ہی لیا۔

XS
SM
MD
LG