رسائی کے لنکس

پاکستان میں کرپشن میں اضافہ، انفراسٹرکچر کی صورت حال مزید خراب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی معیشت جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کے مقابلے میں تنزلی کا شکار رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان ایک سال کے دوران مزید تین درجے نیچے چلا گیا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ عالمی مسابقتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فہرست میں خطے کے دیگر ممالک میں بھارت 68 ویں، سری لنکا 84 ویں، بنگلہ دیش 105 ویں، نیپال 108 ویں جبکہ پاکستان دنیا بھر میں مجموعی طور پر 110ویں نمبر پر رہا۔

رپورٹ کے مطابق اداروں کی کارکردگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں 107ویں نمبر پر رہا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں منظم جرائم کی شرح میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے جبکہ پولیس پر اعتماد میں بھی کسی حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ملک میں عدلیہ کی آزادی میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ تاہم مشکل قوانین کے باعث قانونی نظام کی صلاحیت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

اسی طرح ملک میں آزادی اظہار کے اسکور میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھی گئی ہے جبکہ اس میں پاکستان 116 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

رپورٹ میں دلچسپ انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ ملک میں ایک سال کے دوران کرپشن کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ اس وقت پاکستان دنیا کے 141 ممالک کی فہرست میں کرپشن کے اعتبار سے 101 ویں نمبر پر ہے۔

عالمی مسابقتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران انفراسٹرکچر کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے جبکہ اس اہم معاملے پر پاکستان دنیا بھر میں 105 ویں نمبر پر ہے۔ اس شعبے میں سب سے زیادہ کمی ملک میں ریلوے نیٹ ورک کی کثافت میں کمی بتائی گئی ہے۔

دنیا کے 141 ممالک میں پاکستان کی آبادی کو بجلی کی فراہمی کی فہرست میں بھی 111 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی کے لحاظ سے ملک 125ویں نمبر پر ہے۔

اسی طرح پاکستان انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں اس رپورٹ کے مطابق 131ویں نمبر پر ہے۔

اس فہرست میں دنیا بھر میں جنوبی کوریا کو سب سے پہلے نمبر پر بتایا گیا ہے۔

معاشی استحکام کے لحاظ سے پاکستان 116 ویں نمبر پر ہے۔ اس میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کسی حد تک بہتری دیکھی گئی ہے تاہم صحت، مصنوعات کی تیاری، کھلی تجارت سمیت کئی اہم شعبوں میں پاکستان کا اسکور گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوا ہے۔

اس وقت پاکستان میں فی کس آمدنی 1555 امریکی ڈالر ہے جبکہ دس سال میں ملکی معیشت نے 3.6 فیصد کی رفتار سے ترقی کی ہے۔

پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے طے کردہ مقاصد کے حصول کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار سات فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے۔

اسی طرح ملک میں گزشتہ پانچ برس کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی محض 0.8 فیصد کی رفتار سے اضافہ دیکھا گیا جو کہ انتہائی کم شرح سمجھی جاتی ہے۔

معاشی ماہرین اس رپورٹ پر کیا کہتے ہیں؟

ماہر معاشیات عمر فاروق کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں یہ بات واضح ہے کہ خطے کے دیگر ممالک نے پاکستان سے زیادہ ترقی کی ہے اور وہ اس دوڑ میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔ یہاں معیشت کی بہتری کے لیے بنیادی نکات پر اب زور دیا جا رہا ہے جو کہ خوش آئندہ ہے اور اس کا اثر مستقبل میں نظر آئے گا۔

عمر فاروق کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہاں کاروبار کرنے کے لیے حائل مشکلات بےحد پیچیدہ ہیں۔ کاروباری افراد کو بیورو کریسی کی جانب سے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور درجنوں قسم کے براہ راست اور بلواسطہ ٹیکسز بھی ادا کرنے ہوتے ہیں.

ان کے خیال میں ان مشکلات کو حل کرنے کے لیے اب حکومتی اقدامات مثبت سمت میں کیے جا رہے ہیں۔

عمر فاروق کے مطابق ہمارے ہاں معیشت کو دستاویزی بنانے کا بھی کلچر نہیں ہے۔ تاہم ایک دفعہ معیشت کو دستاویزی شکل دینے سے اس راہ میں حائل کئی مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔

تاجر کیا سوچ رہے ہیں؟

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس کے صدر اور معروف کاروباری شخصیت دارو خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے اور معیشت سمیت تقریبا تمام شعبوں کی حالت دگرگوں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کاروبار کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیے تھے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ میکرو اکنامک استحکام کے نتیجے میں ملکی معیشت کو اس ٹریک پر ڈالا جاسکے گا جس سے مستقبل میں ملک عالمی مسابقت میں بہتر درجوں پر پہنچ سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے انفراسٹرکچر کے معاملے میں نجی شعبے کی مدد سے حکومت بہت بہتری لا سکتی ہے۔ جس سے غربت میں کمی تجارت میں اضافہ ممکن ہے۔

عالمی مسابقی رپورٹ کیا ہے؟

عالمی مسابقتی رپورٹ میں کل 141 ممالک کی معیشت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا کے کل ذرائع آمدنی کا تقریبا 99 فیصد بنتے ہیں۔

اس رپورٹ میں جن اہم عوامل پر غور کیا جاتا ہے۔ ان میں مذکورہ ملک میں قائم ادارے، انفراسٹرکچر، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا استعمال، معاشی استحکام، صحت، افرادی قوت کی مہارت، مارکیٹ اور اسکا حجم، کاروبار کرنے کے مواقع و محرکات اور دیگر عوامل شامل ہیں۔

ان عوامل میں کارکردگی کی بنیاد پر ممالک کی کارکردگی کو جانچا اور پھر اسکور دیا جاتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اس سال دنیا بھر میں سنگاپور پہلے، امریکہ دوسرے اور ہانگ کانگ تیسرے نمبر پر رہا۔

فہرست کے آخر میں آنے والے ممالک میں چاڈ، یمن، کانگو، ہیٹی، موزمبیق اور انگولا شامل ہیں۔

بھارت اور ایران اس فہرست میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 10 درجے نیچے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت اب بھی 68ویں نمبر پر اور خطے میں سب سے آگے ہے. جبکہ ایران کی عالمی رینکنگ 99ویں ہے۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ترقی آذر بائیجان نے کی ہے اور ایک سال کے دوران وہ عالمی مسابقت میں 11 درجے اوپر آیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معیار زندگی کو بڑھانے اور غربت کم کرنے کے لیے مسابقت کی فضا کو مزید بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بہت سے ممالک اقوام متحدہ کی جانب سے 2030 تک پائیدار ترقی کے لیے طے کئے جانے والے 17 مقاصد کو پانے میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے کیونکہ اب تک وہ ان مقاصد کے حصول میں صحیح راستے پر گامزن ہی نہیں۔

XS
SM
MD
LG