رسائی کے لنکس

حقوق نسواں کے لیے بااختیار کمیشن کی منظوری خوش آئند


حقوق نسواں کے لیے بااختیار کمیشن کی منظوری خوش آئند
حقوق نسواں کے لیے بااختیار کمیشن کی منظوری خوش آئند

خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان میں گزشتہ سال حقوق نسواں کے حوالے سے اہم قانون سازی کی جو قابل ستائش ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے جہاں نئے قانون بنانا ضروری ہے وہیں ان قوانین پر موثر عملدرآمد بھی اتنا ہی اہم ہے اس لیے حکومت خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

اراکین پارلیمان اور حقوق نسواں کی سرگرم تنظیمیں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے اور ان کی اقتصادی ترقی کے لیے قومی اسمبلی میں خصوصی کمیشن کے قانون کی متفقہ منظوری کو انتہائی اہم پیش رفت قرار دے رہی ہیں۔

خواتین کی حالت زار سے متعلق ’’نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن‘‘ کے بل میں 22 ترامیم کی رواں ہفتے متفقہ منظوری دی گئی جس کے بعد پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں ایسا ایک با اختیار کمیشن قائم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اس وقت سابق فوجی صدر کے دور اقتدار میں صدارتی حکم (آرڈیننس) کے ذریعے خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اسی نام سے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جو اب تک کام کر رہا ہے لیکن اب اس کی جگہ یہ مجوزہ کمیشن لے گا جو مالی اور انتظامی اعتبار سے زیادہ خود مختار ہو گا۔

حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیا کمیشن زیادہ با اختیار ہو گا۔

’’کمیشن کو مضبوط کیا ہے، اس کو مخصوص جوڈیشل اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو طلب کر سکے اگر کہیں کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ صوبوں کے ساتھ مل کر اور ان کی اجازت کے ساتھ جیل کا دورہ بھی کر سکے گا‘‘۔

خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے مجوزہ کمیشن کو مکمل طور پر ایک خود مختار حیثیت حاصل ہو گئی اور اس کے چیئرپرسن کی تقرری وزیراعظم اور حزب اختلاف کی مشاورت کے ذریعے پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کی جائے گی۔

پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ کمیشن خواتین کے تحفظ کے لیے ملک میں نافذ قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ بھی لے گا۔ ’’اس کمیشن کے پاس یہ اختیارات ہوں گے کہ وہ انکوئری کر سکے کہیں بھی جہاں خواتین کو مسائل درپیش ہیں خاص طور پر تشدد کے حوالے سے بھی۔ ہماری بہت ساری بین الاقوامی کمٹمنٹس بھی ہیں دنیا میں جو ہم نے (معاہدوں پر) دستخط کیے ہوئے ہیں۔ یہ کمیشن ان چیزوں کو بھی دیکھے گا کہ بین الاقوامی قوانین پر ہم کتنا پور اتر رہے ہیں‘‘۔

متفقہ طور پر منظور کیے گئے بل میں کہا گیا کہ ہے کہ کمیشن کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہو گا اور چیئرپرسن ایسا شخص ہو گا جس نے 15 سال سے زائد عرصے تک خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا ہو۔

قومی کمیشن برائے خواتین میں چاروں صوبوں سے دو، دو جب کہ فاٹا، گلگت بلتستان، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور وفاقی دارالحکومت سے ایک، ایک رکن کے علاوہ اقلیتوں سے بھی دو اراکین اس کے ممبران میں شامل ہوں گے۔

کمیشن خواتین کی ترقی کے لیے حکومت کے اقدامات کو جانچنے کے بعد ضروری سفارشات بھی پیش کر سکے گا جب کہ حقوق نسواں کی خلاف ورزی کے تدارک کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی نگرانی بھی کرے گا۔

خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان میں گزشتہ سال حقوق نسواں کے حوالے سے اہم قانون سازی کی جو قابل ستائش ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے جہاں نئے قانون بنانا ضروری ہے وہیں ان قوانین پر موثر عملدرآمد بھی اتنا ہی اہم ہے اس لیے حکومت خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی کے لیے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

XS
SM
MD
LG