رسائی کے لنکس

لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کی بندش سے سینکڑوں کارکن بے روزگار


لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بند ہونے سے بے روزگار ہونے والا ایک مزدور محمد اسلم وی او اے کو اپنے مسائل بتا رہا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بند ہونے سے بے روزگار ہونے والا ایک مزدور محمد اسلم وی او اے کو اپنے مسائل بتا رہا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی قصبے چکوٹھی کے رہائشی مزدور محمد اسلم آج کل دیہاڑی پر کام کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ ماہ انہیں صرف تین دن کے لیے مزدوری کا کام ملا تھا۔

محمد اسلم چکوٹھی میں ایل او سی آر پار ٹریول اینڈ ٹریڈ سینٹر پر ٹرکوں سے مال تجارت اتارنے اور چڑھانے والے ان سینکڑوں مزدوروں میں شامل ہے، جو آر پار تجارت معطل ہونے کے باعث کئی ماہ سے بے روزگار ہیں۔

چار کم سن بیٹیوں، ایک بیٹے اور بیوی کے واحد کفیل محمد اسلم بتایا کہ ٹرک سروس کی معطلی نے انہیں کھانے پینے کے مسائل میں مبتلا کر دیا ہے۔

محمد اسلم تجارتی سرگرمیوں کے دنوں میں ہر ہفتے چار دنوں میں پانچ ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔ لیکن گزشتہ تین مہینوں سے انہیں ماہانہ تین ہزار روپے بھی نہیں مل پا رہے۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔

محمد اسلم کے ساتھ کام کرنے والے دیگر مزدوروں کو بھی اسی بحرانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ان کی طرح اپنے بچوں کو عیدالفطر پر نئے کپڑے بھی نہیں دلا سکے۔

چکوٹھی ٹرمینل پر کام کرنے والے ایک اور دیہاڑی دار محمد لطیف بتاتے ہیں کہ انھیں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ بچوں کی روٹی پوری کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

پونچھ اور راولاکوٹ کے درمیان ایل او سی تتری نوٹ تجارتی مرکز کے صدر سردار کظیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایل او سی کے دونوں اطراف 24 ہزار افراد اس تجارت سے منسلک ہیں جنھیں اب مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آر پار قائم چار ٹرمینلز کے ساتھ مزدور سے لے کر ٹرک ڈرائیور، مالک اور کنڈیکٹر کا روزگار وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مزید چند ماہ تک تجارت معطل رہی تو نگران ادارے کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکے گی۔

انھوں نے کہا کہ ایسے حالات کے لیے امدادی فنڈ قائم کیا جانا چاہئے۔

پاکستان کے زیر انتظام ایل او سی آر پار سفر اور تجارت کے نگران ادارے ٹاٹا کے ناظم اعلی طاہر حمید کہتے ہیں کہ منقسم کشمیر کے درمیان تجارت کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب بحال ہو گی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم کشمیر کے چار شہروں کے درمیان جنس برائے جنس کی بنیاد پر تجارت کا آغاز 2008 میں ہوا تھا۔

یہ تجارت جنگ بندی لائن پر سیکورٹی فورسز کے درمیان کشیدگی اور منشیات کی اسمگلنگ کے واقعات کے باعث گاہے بگاہے معطل ہوتی رہی ہے۔

لیکن پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی شدید کشیدگی کے باعث مارچ میں دو طرفہ تجارت معطل کر دی گئی تھی۔

اسی دوران بھارتی حکومت کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا کہ ایل او سی کے آر پار تجارت کو مبینہ طور پر اسلحہ، منشیات اور کرنسی کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی روک تھام سے متعلق نئے قواعد و ضوابط کے نفاذ تک دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG