رسائی کے لنکس

پانی اور بجلی کے بحران کے خلاف کراچی میں جزوی ہڑتال


ہڑتال کے دوران بعض مقامات پر مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیں۔
ہڑتال کے دوران بعض مقامات پر مشتعل افراد نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیں۔

جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے بقول انہوں نے ہڑتال کی کال شہر میں بجلی کی فراہمی کے ذمہ ادارے 'کے الیکٹرک' کی زیادتی، ظلم، ناجائز بلنگ اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف دی تھی۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کراچی میں پانی اور بجلی کے بحران کے خلاف جمعے کو جزوی ہڑتال کی گئی۔

ہڑتال کی کال مذہبی سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی نے دی تھی۔

شہر کے مختلف علاقوں میں جمعے کی صبح سے ہی جماعتِ اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے جگہ جگہ احتجاج کیا اور ٹریفک بلاک کردی۔

ہڑتال کے دوران ملیر، بنارس کالونی، قائد آباد، لانڈھی، اورنگی، طارق روڈ، یونیورسٹی روڈ، شاہراہِ فیصل، لیاری، نیو ایم اے جناح روڈ، صدر، گزری اور دیگر علاقوں میں لوگوں نے شہر میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کیا۔

ہڑتال کے باعث صدر الیکٹرونکس مارکیٹس، جوڑیا بازار اور دیگر اہم کاروباری و تجارتی مراکز جزوی طور پر بند رہے جب کہ وہاں خریداروں کا رش بھی معمول سے کم رہا۔ شہر کے کئی نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی حاضری معمول سے کم رہی۔

گزشتہ ساڑھے تین سال کے عرصے میں کراچی میں ہونے والی یہ پہلی ہڑتال تھی۔ اس سے قبل کراچی کو بعض اوقات مہینے میں کئی بار یومِ سوگ کے نام پر ہڑتال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے بقول انہوں نے ہڑتال کی کال شہر میں بجلی کی فراہمی کے ذمہ ادارے 'کے الیکٹرک' کی زیادتی، ظلم، ناجائز بلنگ اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف دی تھی۔

جمعے کی دوپہر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم نے ہڑتال کامیاب رہنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے شہری پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ 'کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ' (کے ڈبلیو ایس بی) کا پورا نظام بھی ادارے میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے برباد ہوچکا ہے۔

حافظ نعیم نے اعلان کیا کہ وہ 'کے الیکٹرک' اور 'کے ڈبلیو ایس بی' کے خلاف احتجاج کے دائرے کو مزید وسیع کریں گے۔

اس سے قبل جماعتِ اسلامی نے گزشتہ سال بھی 'کے الیکٹرک' کے خلاف کئی روز تک کراچی میں گورنر ہاؤس کے باہر دھرنا دیا تھا جسے بعد ازاں سندھ حکومت کی جانب سے شہر میں بجلی کی صورتِ حال بہتر بنانے کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا تھا۔

جماعتِ اسلامی نے رواں ماہ بھی شہر میں جاری لوڈ شیڈنگ کے خلاف وزیرِ اعلیٰ سندھ کی رہائش گاہ کے گھیراؤ کا اعلان کیا تھا لیکن وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود جماعتِ اسلامی کے دفتر جا پہنچے تھے اور مل کر صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف حکمتِ عملی بنانے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں حکومت کی جانب سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے اعلان کے باوجود بعض علاقوں میں آٹھ سے دس گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے۔

شدید گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے کراچی کو پانی کی فراہمی میں بھی حکام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ شہر کو سیکڑوں کلومیٹر دور واقع آبی ذخائر سے پمپمنگ کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کو اس وقت تقریباً 3000 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔ لیکن 'کے الیکٹرک' کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق شہر کو صرف 2200 میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی ہیں۔ شدید گرمی میں شہر میں بجلی کی طلب 3400 میگاواٹ تک پہنچنے کا خدشہ ہے جس سے بجلی کا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔

'کے الیکٹرک' کا مؤقف ہے کہ شہر میں سپلائی اس وقت ہی بہتر کی جاسکتی ہے جب سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ادارے کو بجلی بنانے کے لیے 190 ملین کیوبک فٹ گیس روزانہ فراہم کی جائے جس کی فراہمی اس وقت 150 ایم ایم سی ایف ڈی تک ہے۔

لیکن دوسری جانب سوئی سدرن گیس کمپنی کے الیکٹرک پر 78 ارب روپے کے واجبات کے باعث پوری گیس فراہم کرنے سے انکار کرتی آئی ہے۔ 'کے الیکٹرک' کا موقف ہے کہ اگر شہر کے وفاقی اور صوبائی ادارے اپنے ذمے واجب الادا بل ادا کردیں تو وہ گیس کمنپنی کے واجبات ادا کرنے پر تیار ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں بجلی کے بحران پر وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں شہر میں لوڈشیڈنگ میں کمی تو آئی ہے لیکن اب بھی کئی علاقوں کو طویل لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے جبکہ پانی کا بحران بھی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔

کراچی کو اس وقت 1150 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن شہر کو محض 650 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے۔۔ شہر کو اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ دس سال کی تاخیر کےبعد شروع تو ہو چکا ہے مگر اس کی تکمیل میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG