فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے ملک کے شورش زدہ جنوبی علاقے میں سیکیورٹی فورس کی جانب سے داعش کے ایک لیڈر کو پکڑنے میں ناکامی کے بعد وہاں 60 دنوں کے لیے مارشل لاء لگا دیا ہے۔
فوجی کارروائی کے نتیجے میں علاقے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور فوج نے جنوبی علاقے کے ایک بڑے شہر کو محاصرے میں لے لیا۔
فلپائن کی فوج نے منگل کے روزمراوی شہر میں ایک مکان پر چھاپہ مار جس کے متعلق خیال ہے کہ وہاں داعش کا ایک لیڈر اسنیلون ٹوٹونی ہاپیلون جس کا اسلامی نام ابو عبداللہ الفلپینی ہے، چھپا ہوا تھا۔
فوجی عہدے داروں کا خیال ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے ہونے والی ایک جھڑپ میں زخمی ہوگیا تھا اور اس مکان میں اپنے زخموں کا علاج کروا رہا تھا۔
ہاپیلون فلپائن کا سب سے زیادہ مطلوب شخص ہے اور امریکہ نے امریکی شہریوں کے خلاف اس کی مبینہ دہشت گرد کارروائیوں کی بنا پر اس کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
داعش کے خلاف کارروائیوں سے متعلق فوجی یونٹ کے لیفٹیننٹ کرنل جور ہیریرا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم نے سہ پہر کے وقت ہاپیلون کے خلاف کارروائی شروع کی۔
خبروں کے مطابق اس نے اپنے جنگجو ساتھیوں کو مدد کے لیے بلایا۔ تقریباً 20 جنگجوؤں نے اسپتال کے گرد مورچے سنبھال لیے جب کہ باقی جنگجوؤں نے کچھ میل کے فاصلے پر واقع جیل پر حملہ کردیا۔
جس کے بعد دو لاکھ آبادی کے اس شہر میں جھڑپیں شروع ہو گئیں اور لوگ فائر نگ اور گولہ باری میں پھنس گئے۔ رات بھر جاری رہنے والی لڑائیوں میں گولے گرنے سے کئی گھروں کو آگ لگ گئی۔
فوج کے ترجمان ہیریرا کا کہنا ہے کہ شہر میں 50 کے لگ بھگ جنگجو موجود ہیں جو لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فوجی اس وقت تمام اہم تنصیبات کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ لوگوں کی جان بچانے میں ان کی مدد کررہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ایک ویڈیو میں ہاپیلون نے جولائی 2014 میں داعش کے لیڈر ابوبکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس کے گروپ نے مغربی فلپائن سے تین امریکیوں کو اغوا کیا تھا جن میں دو کو بعد میں ہلاک کر دیا۔