رسائی کے لنکس

سی ایٹل: ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی


سی ایٹل شہر
سی ایٹل شہر

ویب ڈیسک۔سی ایٹل امریکہ کا وہ پہلا شہر ہے جہاں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ذات پات کا نظام بنیادی طور پر بھارتی سماجی درجہ بندی ہے جس کا تعلق خاندانی پس منظر سے ہے ۔

سی ایٹل سٹی کونسل میں ہجوم کا نعرہ تھا: ’ پہلے سی ایٹل اور پھر ملک بھر میں امتیازی سلوک کا خاتمہ‘

مائیکرو سافٹ ڈویلپر الوک کمبھرے بھارت میں پیدا ہوئے ۔ ان کا تعلق ظلم و زیادتی کا شکار نچلی ذات سے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی نو عمری کے دور میں انہیں نا پسندیدہ بیانات اور سوالوں کا سامنا رہتا تھا اور ایک انجینئر ہونے کے حوالے سے ان کی قابلیت پر استفسار کیا جاتا تھا۔ الوک کمبھرے ذات پات پر پابندی کے لیے کام کرنے والے فعال کارکن ہیں اور وہ خود بتاتے ہیں کہ ’’ میرے اساتذہ نے مجھے بتایا کہ تمہیں انجینئر بننے کا ارادہ شاید کرنا نہیں چاہیے کیونکہ وہ تمھاری پہنچ ہی میں نہیں ہے ۔ ممکنہ طور پر تمہیں کسی اور چیز پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے ۔ اور ان سب باتوں کا تعلق میری قابلیت کے بارے میں قائم کیے گئے مفروضوں سے تھا۔ ‘‘

کمبھرے کہتے ہیں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہیں اس نوعیت کے امتیازی سلوک کا سامنا امریکہ میں بھی رہا ۔ یہاں ایک اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر نے ڈاکٹریٹ کے ایک پروگرام میں ان پر نقل کرنے کا الزام لگایا۔جب سی ایٹل نے ذات پات کو خلاف قانون قرار دینے کی کوشش کا آ غاز کیا تو وہ شہادت اور گواہی دینے والے سینکڑوں افراد میں شامل تھے ۔

کمبھرے اس تجربے کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا کہ ’’یہ انتہائی پریشان کن تھا ۔ وہ یہاں امریکہ میں بھی اس امتیازی سلوک کے لیے دی جانے والی شہادتوں کے عمل کے دوران آبدیدہ ہوگئے۔ ‘‘

بھارت کے آئین میں ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی 1950 میں ممانعت کی گئی تھی اور گزشتہ کچھ عشروں کے دوران نچلی ذات پات کے لیے مثبت اقدام اٹھاتے ہوئے بہتری کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم 2000 برس سے رائج ذات پات کے اس نظام کی بنیاد پر جنوبی ایشیا اور امریکہ میں بھی انسانوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

کشمالہ ساونت سی ایٹل سٹی کونسل کی رکن ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے ذاتی طور پر ذات پات کے اس نظام کا مشاہدہ کیا ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے ایک گروپ میں بھی یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ جنوبی ایشا سے تعلق رکھنے والے افراد کس طرح سے ذات پات کے اس جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انہیں شعوری سطح پر اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ابھی بھی ذات پات کے مسئلے سے نکل نہیں پائے ہیں۔

کشمالہ ساونت نے ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک پر پابندی کو متعارف کرایا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین درست انداز میں تحفط فراہم نہیں کرتے ۔ان کا کہنا ہے: ’’جب جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی کمیونٹی کے ارکان کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے تو اس کا اظہار سفید فام ورکروں کی جانب سے نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان افسروں کی جانب سے کیا جاتا ہے جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے اور وہ ایک اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور امتیازی سلوک کے اس پہلو کو قانون کی دوسری اشکال میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ ‘‘

بھارت کی ایک کچی بستی
بھارت کی ایک کچی بستی

جنوبی ایشیائی کمیونیٹیز میں ذات پات سے متعلق معاملات کے بارے میں بر سر عام اظہار درست انداز میں نہیں کیا جاتا۔ کمبھرے اس تنقید کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات چیت اور اظہار خیال آسان نہیں ہوتا۔ تاہم یہ ضروری بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں کمیونٹی کو درپیش ایسے چیلنجوں کو صرف اس لیے نظر انداز کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم باہر کی دنیا کے لیے ایک اچھی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں اپنے ماضی کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے مفروضوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صورت حال کو بہتر بنایا جا سکے۔

کونسل رکن کشمالہ ساونت کو امید ہے کہ سی ایٹل میں ہونے والی یہ قانون سازی دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گی۔ کیلی فورنیا میں بھی قانون ساز ایسی ہی قانون سازی پر غور کر رہے ہیں۔

(نتاشہ موزگوایا۔ وی او اے نیوز ۔ سی ایٹل)

XS
SM
MD
LG