رسائی کے لنکس

پنجاب: ن لیگ اور تحریکِ انصاف دونوں اکثریت حاصل کرنے کی دعویدار


متضاد دعووں کے باوجود اب تک دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف عام انتخابات کو ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے لیے اپنے نام فائنل نہیں کر سکی ہیں لیکن دونوں جماعتیں صوبائی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے درکار ارکان کی تعداد پورا ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔

پنجاب سے منتخب ہونے والے آزاد ارکان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ملاقاتوں کا سلسلہ ھی بدستور جاری ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان تمام ملاقوں کا مقصد آزاد امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کی چھتری تلے جمع کرنا ہے اور ان کے بقول اس مقصد میں وہ کامیاب رہے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت نے وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے آزاد امیدواران اور دیگر سیاسی قوتوں سے رابطے کی ذمہ داری جہانگیر ترین کو سونپی ہے جن کی معیت میں اب تک ڈیڑھ درجن سے زائد آزاد امیدوار بنی گالہ کی یاترا کرچکے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے آزاد امیدواروں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کامیاب رہے ہیں اور پی ٹی آئی وفاق کے ساتھ ساتھ صوبۂ پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔

لیکن خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی سابق اتحادی جماعت، جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کا آغاز ہی ہارس ٹریڈنگ سے ہو رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ الیکشن کے بعد وہی فرسودہ اور گلا سڑا نظام عوام کے گلے میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل جس طرح سوچی سمجھی اسکیم کے تحت تمام ریاستی قوت اور وسائل کا استعمال کر کے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں، میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کیا گیا اور اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے تمام تر انتظامات کیے گئے، اس کی مثال نہیں ملتی۔

سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی صوبۂ پنجاب میں مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کے لیے کوششیں کر ہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) گزشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں 129 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے اور اس کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آزاد امیدواروں کی حمایت سے حکومت سازی کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔

اپنے نو منتخب ارکانِ اسمبلی کو اعتماد میں لینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف لاہور میں پارلیمانی پارٹی کا ایک اجلاس بھی کرچکے ہیں جب کہ نون لیگ کے مرکزی رہنما مسلسل اپنے نومنتخب ارکان سے رابطوں میں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے الزام لگایا ہے کہ صحیح معنوں میں چھانگا مانگا کی سیاست اب ہو رہی ہے جس میں ان کے بقول کسی کے مینڈیٹ کا کوئی احترام نہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حمزہ شہباز کا کہنا تھا، "کیمرے کی آنکھ سے کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ کس کے جہازوں میں آزاد امیدواروں کو بنی گالہ کا طواف کرایا جا رہا ہے اور جس نے کروڑوں کے قرضے معاف کرائے، آج نوٹوں کی بوریاں کھول کر گھروں میں جاتا ہے اور ووٹ خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔"

قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 137 اور پنجاب اسمبلی میں 149 ارکان کی ضرورت ہے۔

اس وقت تحریکِ انصاف کے قومی اسمبلی میں 116 اور پنجاب اسمبلی میں 123 ارکان ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس وفاق میں 64 اور پنجاب اسمبلی میں 129 نشستیں ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (قائدِ اعظم) اور ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کر چکی ہیں اور پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری کا دعوٰی ہے کہ آزاد امیدواروں کو ملا کر پنجاب اسمبلی میں ان کے حامی ارکان کی تعداد 153 تک پہنچ چکی ہے۔

اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں بھی پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے لیکن ن لیگ کی حمایت کرنے والے آزاد ارکان کے ناموں کا اعلان ان کے بقول پارٹی کی پالیسی کے تحت نہیں کیا جا رہا۔

تاہم متضاد دعووں کے باوجود اب تک دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG