رسائی کے لنکس

پاکستان میں انتخابی نتائج؛ کس اُمیدوار نے شکست تسلیم کی؟


پاکستان میں جمعرات کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں کئی بڑے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے اور ان میں چند نے شکست تسلیم بھی کر لی ہے۔

لاہور کے حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق اور تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار لطیف کھوسہ مدِ مقابل تھے۔

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ عبوری نتائج کے مطابق لطیف کھوسہ نے ایک لاکھ 17 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ خواجہ سعد رفیق کو 77 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ یوں لطیف کھوسہ نے این اے 122 میں ان کے مقابلے میں 39 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

سرکاری نتائج آنے سے قبل ہی خواجہ سعد رفیق نے شکست تسلیم کرنے اور لطیف کھوسہ کو مبارک باد کا بیان جاری کیا۔

سوشل میڈیا پر بیان میں خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عوامی فیصلے پر خوش دلی سے سر تسلیم خم۔

سینیٹ کے سابق رکن مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی سوشل میڈیا پر بیان میں اسلام آباد کے این اے 47 اور این اے 48 میں شکست تسلیم کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار علی بخاری کو حلقہ 48 اسلام آباد کی سیٹ ہرا دی گئی ہے جب کہ وہ واضح طور پر جیتے ہوئے تھے۔ اسی طرح شعیب شاہین بھی این اے 47 سے واضح برتری کے ساتھ جیت چکے ہیں لیکن نتائج ان کے بھی حوالے نہیں کیے جا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ "یہ بدترین دھاندلی اور آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔"

سرگودھا میں این اے 83 پر دیگر کئی امیدواروں کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) کے محسن نواز رانجھا بھی میدان میں تھے البتہ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار اسامہ احمد میلہ نے کامیابی حاصل کی۔

اسامہ احمد میلہ نے ایک لاکھ 36 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ محسن نواز رانجھا کو 98 ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ یوں ان کو لگ بھگ 38 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔

محسن شاہ نواز رانجھا نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اسامہ احمد میلہ کو رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پر دلی مبارک باد ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کرتے ہیں اور دعا ہے کہ منتخب ہونے والی پارلیمان ملک و قوم کو درپیش چیلنجوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے مردان سے شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی کے عہدے سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے آبائی ضلعے مردان کے تمام حلقوں پر اے این پی کی شکست کی ذمہ داری کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ "میرے حلقہ اور مردان کے عوام نے اگر ہم پر اعتماد نہیں کیا تو اور اسی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کے ادنیٰ رکن کے حیثیت سے باچاخان کے قافلے کا حصہ رہوں گا۔

خیبر پختونخوا میں بونیر سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 25 پر پیپلز پارٹی کی امیدوار سویرا پرکاش بھی میدان میں تھی لیکن ان کو کامیابی نہ مل سکی۔

صوبائی اسمبلی کے اس حلقے سے آزاد امیدوار ریاض خان 28 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جب کہ سویرا پرکاش نے صرف ساڑھے 17 سو ووٹ حاصل کیے۔

سویرا پرکاش نے سوشل میڈیا پر حلقے کا نتیجہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کی حمایت اور پیار کا شکریہ۔"

مقامی میڈیا کے مطابق وہ بونیر سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے والی پہلی ہندو خاتون ہیں۔

حال ہی میں بننے والی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو ملتان کے حلقہ این اے 149 میں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار عامر ڈوگر سے شکست ہوئی ہے۔

عامر ڈوگر کے 78 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں جہانگیر ترین کو 27 ہزار ووٹ ملے۔

جہانگیر ترین کے صاحب زادے علی خان ترین نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ہمارے مدِ مقابل تحریکِ انصاف کے عامر ڈوگر نے این اے 149 بہت اچھی مہم چلائی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی مہم بہت منظم اور پر اثر تھی۔ وہ کامیابی کے حق دار تھے۔

خیبرپختونخوا کے حلقہ پی کے 83 سے الیکشن ہارنے والی اُمیدوار ثمر ہارون بلور گلدستہ لے کر جیتنے والے اُمیدوار مینا خان آفریدی کی رہائش گاہ پر پہنچ گئیں۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی متعدد نشستوں کے نتائج کا اعلان ہونا ابھی ہونا باقی ہے۔

متعدد ایسے رہنما بھی ہیں جن کو انتخابات میں شکست ہو چکی ہے اور وہ مختلف الزامات عائد کر رہے ہیں جب کہ چند ایک نے عدالت رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG