رسائی کے لنکس

'کراچی کا غیر محفوظ اور مہنگا ٹرانسپورٹ نظام خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سلمیٰ کریم کراچی کے ایک نجی بینک میں ملازمت کرتی ہیں اور انہیں روز اپنے گھر سے دفتر کا سفر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کرنا پڑتا ہے۔ 50 منٹ سے زائد کے سفر کے لیے انہیں بعض اوقات رکشے یا آن لائن ٹیکسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب مہینے کے آخر میں بجٹ سے اخراجات نکالنا مشکل ہو جاتا ہے تو انہیں پیسے بچانے کے لیے منی بس اور کوچز پر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔

سلمیٰ کا کہنا ہے کہ انہیں کام کے دوران اس قدر مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا جس قدر بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھانے سے کوفت ہوتی ہے۔ بسوں میں سفر سستا تو ہے مگر بسوں کے لیے لمبا انتظار غیر محفوظ ہے۔ اسی طرح رکشوں اور ٹیکسیوں میں سفر بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

اُن کے بقول خاتون ہونے کے ناطے انہیں اور بھی زیادہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات کچھ ایسے ڈرائیورز سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو انہیں کمزور سمجھ کر ہراساں کرتے ہیں۔ اسی طرح انہیں پیدل چلتے وقت بھی کئی مردوں کی نظروں کا سامنا ہوتا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی کے باعث شہری بالخصوص خواتین شہری عرصۂ دراز سے شکایات کر رہی ہیں۔

خواتین عرصۂ دراز سے پبلک ٹرانسپورٹ میں مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایات کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
خواتین عرصۂ دراز سے پبلک ٹرانسپورٹ میں مناسب سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایات کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

حال ہی میں کراچی کی حبیب یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی اکثریت کو کراچی میں غیر محفوظ، ناقابلِ اعتماد، مہنگے اور لمبے سفر کے باعث تعلیم اور ملازمت کے مواقع تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ تحقیق 'Her City and her stories' کے عنوان کی گئی ہے جس میں کراچی میں خواتین کو درپیش نقل و حرکت کے مسائل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب انفرااسٹرکچر کے مسائل ہیں تو وہیں ملک میں موجود سماجی اور معاشرتی ماحول بھی خواتین کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے۔

ریسرچ کے مطابق خواتین کی وسیع پیمانے پر نقل و حرکت کو بہتر بنانے کے لیے طویل المدتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اور اس مقصد کے لیے ہر سطح پر اسٹیک ہولڈرز سے تعاون ضروری ہے۔

مختلف شعبوں سے وابستہ طلبہ نے اس ریسرچ میں حصہ لیا ہے جن میں معاشرتی ترقی اور پالیسی کے علاوہ کمیونی کیشن اینڈ ڈیزائن، کمپیوٹر سائنس، آرکیٹیکچر اور اربن ڈیزائن سے وابستہ افراد شامل تھے۔ ریسرچ میں عام شہریوں سے بھی ان کی رائے لی گئی ہے۔

کرونا بحران میں پاکستان کی ورکنگ ویمن کی مشکلات
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

ریسرچ کے مندرجات کے مطابق خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت میں بظاہر نظر آنے والے عوامل کے ساتھ کچھ ایسے عوامل کی بھی نشان دہی کی گئی جو نظروں سے اوجھل لیکن اہمیت کے حامل تھے۔ ان میں معاشرتی اقدار، خواتین کے تحفظ اور حفاظت سے جُڑے خدشات، ٹرانسپورٹ کے محدود ذرائع وہ عوامل تھے جو خواتین کی نقل و حرکت میں زیادہ بڑی رکاوٹیں نظر آئے۔

حبیب یونیورسٹی کے شعبہ کمیونی کیشن اینڈ ڈیزائن سے گریجویٹ ڈیزائنر اور ریسرچر مسعود صدیقی نے بتایا کہ ان کی تحقیق میں لڑکیوں اور نوجوان خواتین پر جن کی عمریں 15-30 سال کے درمیان تھی، توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہر بھر میں خواتین کی نقل و حرکت کئی عوامل سے متاثر ہوتی ہے جیسے سفر کی قیمت، پبلک یا آن لائن ٹیکسی سروسز اور دیگر ٹرانسپورٹ سروسز میں خواتین کے لیے عدم تحفظ کا احساس اور سفر کی طوالت جیسے مسائل شامل ہیں۔

'خواتین کے ٹرانسپورٹ پر آنے والے ماہانہ اخراجات کافی زیادہ ہیں'

کراچی جیسے جدید شہر میں خواتین اعلٰی تعلیم کے حصول اور ملازمتوں کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ ریسرچ کے مطابق ان خواتین میں سے اکثر کے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں ماہانہ اخراجات 10 ہزار روپے کے لگ بھگ ہیں۔ جو آبادی کی اوسط آمدنی کے تناسب سے کافی زیادہ ہیں۔

تاہم 18 سے 25 سال کی عمر کی لڑکیوں کی نقل و حرکت اس عمر کے لڑکوں کے مقابلے میں کافی محدود پائی گئی۔ جس کا لامحالہ اثر ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی پڑتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین زیادہ تر گھروں میں کام کرنے یا پرائمری اور سیکنڈری اسکولز میں اساتذہ ہیں۔ یا وہ بیوٹی پارلرز وغیرہ میں کام کرتی ہیں۔ دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو زیادہ تعلیم یافتہ ہیں انہیں طب اور اعلیٰ تعلیم جیسے شعبوں میں بھی نوکریاں مل جاتی ہیں۔

خواتین کی اپنی سواری، مطلب خود مختاری
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:11 0:00

'اکیلے سفر کرتی خواتین کو قبول کرنے کی معاشرتی تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی'

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مواقع پر خواتین کے اکیلے سفر کو کھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا اور اس پر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

آن لائن ٹیکسی سروس 'کریم' کے شعبہ تعلقات عامہ کی ڈائریکٹر مدیحہ جاوید کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو باہر جانا پڑتا ہے تو انہیں یا تو ڈرائیور کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں یا پھر گھر کے مردوں ہی کو ان کے لیے گاڑی چلانا ہوتی ہے۔ لیکن اب زیادہ سے زیادہ خواتین اپنی نقل و حرکت کا کنٹرول خود سنبھالنا چاہتی ہیں۔

اُن کے بقول پاکستان میں خواتین کے آزادانہ سفر کرنے میں بنیادی مسئلہ ثقافتی فرق کا آتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ بطور کمپنی اپنے صارفین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا، لیکن اکیلے سفر کرتی خواتین کو قبول کرنے کی معاشرتی تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی۔

خواتین کے نقل و حرکت سے جُڑے مسائل پر کیسے قابو پایا جائے؟

رپورٹ کے مطابق شہر میں ایسی ٹرانسپورٹ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جن میں خواتین ہی ڈرائیورز ہوں تاکہ خواتین کے لیے لمبے اور تھکا دینے والے سفر کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔

رپورٹ میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

گزشتہ برس جب لاہور سے گوجرانوالہ اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ اکیلے جانے والی خاتون کے ریپ کا واقعہ سامنے آیا تو ایک بار پھر خواتین کی نقل و حرکت کے محفوظ ہونے پر کئی سوالات اٹھے اور پھر بحث کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اگرچہ کیس میں دو مجرموں کو سزائیں سنا دی گئی ہیں مگر والدین سے لے کر قومی سطح پر اس افسوسناک واقعے سے پہنچنے والے دھچکے کے اثرات اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔

سندھ حکومت کا مؤقف

ادھر سندھ حکومت کا کہنا ہے ایک جانب جہاں کراچی میں وفاقی حکومت کے تحت 25 کلو میٹر طویل گرین لائن بس ریپڈ سسٹم پر کام جاری ہے تو وہیں صوبائی حکومت چار کلومیٹر طویل اورنج لائن بس ریپڈ سسٹم پر بھی کام رواں سال تک مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے اسی طرح 26 کلو میٹر ریڈ لائن کے لیے بھی ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے تعاون پر کام اسی سال تک شروع ہونے کی توقع ہے۔ ان منصوبوں کے علاوہ دیگر منصوبوں کے تحت بھی شہر کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے اور خواتین سمیت تمام شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔

XS
SM
MD
LG