رسائی کے لنکس

صحافیوں کو قید رکھنے والے ملکوں میں چین کا پہلا نمبر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

آزادیٔ صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں کم از کم 250 صحافی قید ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ چین میں قید ہیں۔

سی پی جے نے بدھ کو جاری اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس سب سے زیادہ صحافی چین کی مختلف جیلوں میں قید کیے گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اکثر صحافیوں کو "ملک مخالف" یا جھوٹی خبر پھیلانے کے الزامات کے تحت قید کیا گیا ہے۔

سی پی جے کا کہنا ہے کہ چین کے علاوہ ترکی، سعودی عرب، مصر، اریٹیریا، ویت نام اور ایران میں بھی متعدد صحافیوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سی پی جے نے کم از کم 48 ایسے صحافیوں کی نشان دہی کی ہے جو چین کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ یہ تعداد 2018 میں 47 تھی۔

البتہ، بدھ کو چین نے اپنے ملک میں آزادیٔ صحافت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صرف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔

(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہوا چن ینگ نے اپنی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے ان 48 صحافیوں کے "غیر قانونی کاموں" سے متعلق تفصیلات بھی بتائیں جن کے تحت اُنہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔

سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کو قید رکھنے والے ملکوں کی درجہ بندی میں ترکی دوسرے نمبر پر ہے جہاں 47 صحافی قید ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں گزشتہ سال 68 صحافی قید تھے جب کہ رواں برس ان کی تعداد گھٹ کر 47 ہو گئی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود ترکی میں صحافیوں کے حوالے سے کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

سی پی جے کے مطابق، ترک حکومت نے ذرائع ابلاغ کے 100 سے زائد اداروں کو بند کر دیا ہے اور ان کے عملے کے خلاف دہشت گردی سے متعلق الزامات لگائے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے رپورٹروں کو کام سے ہٹائے جانے کے علاوہ اُنہیں ڈرایا دھمکایا بھی گیا ہے۔

(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سی پی جے کے بقول، ترکی میں درجنوں صحافی ایسے ہیں جو جیلوں میں قید تو نہیں ہیں۔ البتہ، ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں اور ممکن ہے کہ انہیں بھی جیلوں میں قید کیا جائے۔

کئی ترک صحافیوں کو ان کی عدم موجودگی میں بھی سزا سنائی گئی ہے جس کے بعد اگر وہ ملک واپس آئیں گے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

سی پی جے کے مطابق، مشرقِ وسطیٰ میں آمریت، عدم استحکام اور مظاہروں کی وجہ سے قید صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں سعودی عرب اور مصر کو صحافیوں کے لیے تیسری بڑی جیل قرار دیا گیا ہے جہاں 26، 26 صحافی قید ہیں۔ سعودی عرب میں قید 18 صحافیوں پر الزام واضح نہیں کیا گیا کہ وہ کس جرم کے تحت قید کیے گئے ہیں۔

مصر میں متعدد صحافی ستمبر میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد قید ہوئے ہیں۔

(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

دنیا بھر میں 30 صحافیوں کو 'جھوٹی خبر' دینے کے الزام میں قید کیا گیا ہے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 28 تھی۔ جھوٹی خبر دینے کے الزامات زیادہ تر مصر میں لگائے گئے ہیں، جب کہ روس اور سنگا پور میں بھی کئی صحافیوں پر ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سی پی جے نے کہا ہے کہ اگرچہ دنیا بھر میں قید صحافیوں کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی 250 کا عدد بہت زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 2018 میں دنیا بھر میں 255 صحافی قید تھے اور یہ تعداد 2016 میں سب سے زیادہ تھی جب 273 صحافیوں کو قید رکھا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG