رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی کا وزیرِ اعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ


وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ (فائل فوٹو)
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ (فائل فوٹو)

پی ٹی آئی رہنماؤں نے نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، فریال تالپور اور وزیرِ اعلی مراد علی شاہ کے خلاف منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد ملے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے منی لانڈرنگ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سامنے آنے اور اس میں نامزد ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے جانے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں۔

تحریکِ انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بہت جلد ان کی جماعت سندھ میں حکومت قائم کرے گی۔

جمعے کو سندھ اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ اور دیگر نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں گزشتہ 10 سال کے دوران بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی۔

لیکن ان کے بقول اب منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی میں تمام شواہد سامنے آ چکے ہیں جس پر وزیرِ اعلیٰ سندھ کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں اگر اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، تو صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے آدھے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، فریال تالپور اور وزیرِ اعلی مراد علی شاہ کے خلاف منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد ملے ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سابق صدر آصف زرداری جلد نا اہل ہو جائیں گے۔

اس موقع پر خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ صوبے میں لوٹ مار کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

ادھر وزیرِ اعلیٰ سندھ نے جمعے کو گھوٹکی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے اس مطالبے کا کوئی براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا لیکن وفاقی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ نے وزیرِ اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں حکومت کرنے کا کوئی ڈھنگ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی چند ماہ میں ہی سندھ دشمنی واضح ہوچکی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ کے بقول وفاقی حکومت کی نا تجربہ کاری کے باعث اس بار ٹیکس کم جمع ہوا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے محصولات میں کمی کے باعث سندھ کو ترقیاتی اسکمیوں میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ادھر ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ان کی پارٹی کے رہنماؤں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت خود کو عدالتوں سے کلیئر کرائے گی۔

انہوں نے کہا کہ محض رپورٹ سامنے آنے یا تحقیقات میں نام سامنے آنے پر وزیرِ اعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ جائز نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہونا چاہیے تو پھر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو خود وزیرِ اعظم عمران خان اور اپنی پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کا استعفیٰ مانگنا چاہیے۔

منی لانڈرنگ کیس میں مراد علی شاہ کے علاوہ سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، بعض موجودہ اور سابق صوبائی وزرا اور اراکین سندھ اسمبلی کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔

لیکن ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی موجودہ وزیرِ اعلیٰ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی رپورٹ پر جمعرات کے روز بلاول بھٹو زرداری نے بھی لاڑکانہ میں ہونے والے جلسۂ عام میں کڑی تنقید کی تھی۔

انہوں نے رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انہیں خوفزدہ کرنے کی ناکام کوشش ہے لیکن ان کی جماعت قانونی اور عوامی پلیٹ فارم پر اس کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔

سندھ کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ گرما گرمی کی اصل وجہ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاونٹس کیس میں جے آئی ٹی کی وہ تحقیقاتی رپورٹ ہے جس میں سابق صدر آصف زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال ٹالپور، بحریہ ٹاؤن اور اومنی گروپ کو جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کا وزیرِ اعلیٰ سندھ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ محض مطالبہ ہی ہے جس کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں.

تاہم ان کے بقول اخلاقی طور پر حکمرانوں میں جرات نہیں کہ تحقیقات میں نام آنے پر اپنا عہدہ خود چھوڑ دیں۔

ڈاکٹر توصیف کے مطابق پیپلزپارٹی کی قیادت قانونی طور پر مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے اور عوامی سطح پر بھی اسے ایسی کوئی خاص پزیرائی حاصل نہیں کہ وہ کوئی مقبول احتجاجی مہم چلا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس غیر مقبولیت کی بنیادی وجہ صوبے میں حکمران جماعت کی 10 سالہ خراب کارکردگی ہے۔

XS
SM
MD
LG