رسائی کے لنکس

کھاد کا بحران: ’پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں کسان اور کاشت کار کھاد حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں کسانوں کا شکوہ ہے کہ لمبی قطاروں میں لگنے کے بعد بھی انہیں ضرورت کے مطابق کھاد نہیں مل رہی ہے۔

پنجاب میں یوریا کھاد کی ایک بوری کی قیمت 1768 روپے ہے۔ لیکن کسان یہی بوری 2200 سے 2500 روپے تک میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ کسانوں کے مطابق کچھ اضلاع میں ایک شناختی کارڈ کے عوض یوریا کھاد کی دو بوریاں ملتی ہیں جب کہ بعض اضلاع میں ایک شناختی کارڈ کے عوض یوریا کھاد کی پانچ بوریاں اس نرخ میں مل رہی ہیں۔

پاکستان میں ربیع کی فصل کی کاشت مکمل ہو چکی ہے جس کا آغاز عام طور پر اکتوبر نومبر میں ہو جاتا ہے۔ کھاد کی عدم دستیابی یا کمی کے باعث پنجاب کے تمام اضلاع کے کاشت کار پریشان ہیں اور وہ ضرورت پوری کرنے کے لیے مہنگے داموں کھاد خریدنے پر مجبور ہیں۔

ضلع پاکپتن کے ایک زمیندار راؤ حامد علی خاں بتاتے ہیں کہ ربیع کی فصلوں کی بوائی مکمل ہونے کے بعد ڈی اے پی کھاد کا استعمال قدرے کم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھاد دستیاب تو ہے لیکن اس کی قیمت زیادہ ہو چکی ہے۔ اس لیے کسانوں کو اگلی فصل کے لیے جب اس کی ضرورت پڑے گی تو انہیں مہنگے داموں کھاد خریدنا پڑے گی۔

ان کے بقول یوریا تو آنکھ کا سرمہ بن گئی ہے بلکہ سرمہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے۔ لیکن اس وقت یوریا کھاد ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

راؤ حامد نے بتایا کہ 2020 میں انہوں نے خریف کی کاشت کے لیے ڈی اے پی کھاد کا ایک تھیلا 3400 روپے میں خریدا تھا۔ جب کہ 2021 میں وہی تھیلا 9200 میں ملا ہے اور اب اس کی قیمت 10 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان میں کھاد کی پیداوار اور کھپت

ڈائی امونیم فاسفیٹ کھاد کو ڈی اے پی یا ڈی پی بھی کہا جاتا ہے۔ کسانوں کے مطابق جب بھی کسی فصل کی تیاری کے لیے زمین تیار کی جاتی ہے تو بوائی کے وقت اسی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستانی زراعت ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:58 0:00

یوریا کھاد فصلوں کی تیاری اور فصل کو پانی دینے کے مختلف مراحل میں استعمال کی جاتی ہے۔ مختلف فصلوں میں اس کے استعمال کی شرح بھی مختلف ہوتی ہے۔

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر بتاتے ہیں کہ پاکستان میں یوریا کھاد کی سالانہ پیداوار 65 لاکھ ٹن ہے جب کہ یوریا کھاد کی سالانہ کھپت 64 سے 66 لاکھ ٹن ہے۔

ضلع پاکپتن کے ایک کھاد ڈیلر شیخ محمد احمد کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈی اے پی کی ضرورت 22 سے 23 لاکھ ٹن سالانہ ہے لیکن پاکستان میں ڈی اے پی کی پیداوار چھ لاکھ سے سات لاکھ ٹن ہے اور یہ بھی ایک یونٹ بناتا ہے۔ بقیہ 12 سے 13 لاکھ ٹن ڈی اے پی کھاد پاکستان کو درآمد کرنا پڑتی ہے۔

زمین دار راؤ حامد علی خاں بتاتے ہیں کہ گندم ایک بڑی فصل ہے جس کو اَب ڈرل کے ذریعے بویا جاتا ہے۔ پہلے اِس کو ہاتھ سے بویا جاتا تھا جس کو چَھٹا کرنا کہتے ہیں۔ ڈرل کے ذریعے کھاد اور بیج کو بوائی کے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ بوائی کے وقت فی ایکڑ کے لیے ڈی اے پی کی ایک بوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بعض خوش حال زمین دار پوٹاش اور فاسفورس کی کھاد بھی ساتھ ہی ڈال دیتے ہیں۔ اِسی طرح یوریا کھاد کی ضرورت فی ایکڑ دو سے تین بوریاں ہو جاتی ہے۔

راؤ حامد نے مزید بتایا کہ آلو کی فصل میں تین سے پانچ بوری فی ایکڑ بوائی کے وقت پوٹاش اور اِسی طرح یوریا کھادوں کا استعمال ہوتا ہے۔

کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی سے پاکستانی کسان پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00

ان کے مطابق موجودہ نِرخوں کے حساب سے اگر ایک ایکڑ زمین پر آلو کی فصل بونا ہو تو کم از کم ساڑھے 62 ہزار روپے صرف کھاد کے اخراجات ہیں۔ پانی، زمین کی تیاری، ٹریکٹر اور دیگر اخراجات اِس کے علاوہ ہیں۔

کھاد کیوں نہیں مل رہی؟

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر خود بھی ضلع وہاڑی کے ایک کسان ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس موسمِ گرما میں پاکستان میں کھاد بنانے والے تین پلانٹ بند ہوئے جس کی وجہ وہ گیس کی قلت سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے پاکستان میں یوریا کھاد کی پیداوار میں 20 لاکھ ٹن سے زائد کی کمی آئی ہے۔ کھاد بنانے والے تین کارخانے بند ہونے پر انہوں نے احتجاج کیا اور حکومت تک یہ بات پہنچائی جس کے تین ماہ بعد یہ کارخانے دوبارہ چل گئے تھے۔

ان کے بقول اِسی دوران ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ کھاد کی پیداوار پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگایا جا رہا ہے جس کے باعث ذخیرہ اندوزی بڑھ گئی لیکن بعد میں جی ایس ٹی نہیں لگا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی اِس پریشانی سے نکلے ہی تھے کہ عالمی مارکیٹ میں یوریا کی قیمتیں بڑھنے لگیں جس کی وجہ سے پاکستان سے کھاد کی اسمگلنگ شروع ہو گئی۔

’مسئلہ اسمگلنگ کا ہے‘

کھاد ڈیلر شیخ محمد احمد نے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی کھاد پیدا ہوتی ہے وہ ملکی ضروریات کے حساب سے کافی ہے۔

اُن کی رائے میں پاکستان افغانستان کی غذائی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان سے یوریا کھاد، گندم، آلو اور دیگر اجناس افغانستان اسمگل ہو رہی ہیں جس پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے یوریا کھاد درآمد کرنے میں تاخیر کر دی جس کے باعث بحران بڑھتا چلا گیا۔

شیخ محمد احمد کے مطابق اسمگلنگ کے کوئی اعداد و شمار یا ڈیٹا تو ہوتا نہیں اس لیے اسمگل ہونے والی کھاد کی مقدار کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ البتہ ان کے خیال میں کھاد کی اسمگلنگ ہی کے باعث پاکستان میں کھاد کی کمی ہوئی ہے۔

’درآمد مسئلے کا حل نہیں‘

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد کھوکھر کے بقول یوریا کھاد کے بحران سے قبل کاشت کاروں کو ڈی اے پی کھاد کی کمی کا سامنا تھا۔

اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈی اے پی کی قیمتیں زیادہ تھیں جو کاشت کار کی قوتِ خرید سے باہر تھی۔ پاکستان اپنی ضرورت کی 70 فی صد کے قریب ڈی اے پی کھاد کی ضروریات درآمد کر کے پوری کرتا ہے۔ صرف 30 فی صد کھاد پاکستان میں بنتی ہے جس کا خام مال بھی درآمد ہی کیا جاتا ہے۔

کھاد ڈیلر شیخ محمد احمد کے بقول اگر پاکستان بیرونِ ملک سے یوریا کھاد منگواتا ہے تو اس کی قیمت تقریباً آٹھ ہزار روپے فی بوری پڑتی ہے جو پاکستان میں تیار ہونے والی کھاد کی قیمت سے تقریباً تین سے چار گنا زیادہ ہے۔

پیداواری اہداف متاثر ہونے کا اندیشہ

کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ کھاد کی کم دستیابی کے باعث مختلف فصلوں کے پیداواری اہداف متاثر ہو سکتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اس برس گندم سمیت تمام فصلوں کی پیداوار کم ہو گی۔

کسان اتحاد کے سربراہ خالد کھوکھر بتاتے ہیں کہ ڈی اے پی کی کمی کے باعث کسانوں نے 17 سے 20 فی صد تک اس کا کم استعمال کیا ہے۔

راؤ حامد علی خان کا کہنا ہے کہ جن کسانوں کو ابھی تک یوریا کھاد نہیں ملی ہے وہ صرف پانی پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔

اُن کے بقول صوبہ پنجاب میں گندم کی فصل کی اوسط پیداوار 40 سے 45 من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ موجودہ صورتِ حال کے حساب سے کسانوں کی اوسط پیداوار 30 من فی ایکڑ تک ہو سکتی ہے۔

ڈیجیٹل ڈیرہ: کاشت کاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

شیح محمد احمد کی رائے میں اگر کسان کسی بھی فصل کے لیے کھادوں کا استعمال نہیں کرتا ہے تو اس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ ڈی اے پی اور یوریا کھاد کا استعمال نہ کرنے سے صرف گندم کی فصل 20 سے 30 فی صد فی ایکڑ تک متاثر ہو سکتی ہے۔

کھاد ڈیلروں کا موقف

ضلع پاکپتن سے کھاد ڈیلر شیخ محمد احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پنجاب اور پاکستان بھر میں کھاد کی کنٹرول قیمت 1768 روپے فی بوری ہے اور اِسی دام پر کسان کو مل رہی ہے۔

ان کے مطابق لوگ کھاد ڈیلروں سے اِسی قیمت پر کھاد خریدتے ہیں اور اسے 24 سو سے 25 سو روپے فی بوری کے حساب سے آگے فروخت کر دیتے ہیں۔

شیخ محمد احمد کے بقول اِن دِنوں یوریا کھاد کا استعمال کم ہو جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک غیر یقنی کی صورتِ حال کے باعث کسان زیادہ سے زیادہ یوریا کھاد کو خرید رہے ہیں کہ معلوم نہیں مستقبل قریب میں کھاد ملے گی بھی یا نہیں۔

شیخ محمد احمد بتاتے ہیں کہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کچھ مافیا اِس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جن میں مبینہ طور پر کچھ کسانوں کی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

ان کے بقول کھاد ڈیلروں پر حکومت کی جانچ پڑتال سخت ہے جس کے باعث وہ کھاد کی ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں۔

گندم کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ

سربراہ کسان اتحاد خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ حالیہ سیزن میں پڑوسی ملک بھارت میں بھی ڈی اے پی دستیاب نہیں تھی۔ یوریا کی دستیابی کا بھی مسئلہ تھا جس کے باعث وہاں پر بھی فصلوں کی بوائی کے وقت دونوں کھادیں کم استعمال ہوئی ہیں۔

خالد کھوکھو کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں پانچ سے 10 فی صد کمی آتی ہے تو دونوں ملک ہی عالمی منڈی میں چلے جائیں گے جس کے باعث گندم کے نرخ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

پاکپتن کی ایک زمیندار خاتون سے ملاقات
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:56 0:00

انہوں نے بتایا کہ پاکستان زیادہ تر گندم یوکرین اور روس سے خریدتا ہے۔ متحدہ عرب امارات یوکرین سے گندم کی خریداری کے زیادہ سے زیادہ پیشگی آرڈر بک کرا چکا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرائن اور روس کی کشیدگی کی وجہ سے بھی گندم کا حصول خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

ان کے مطابق اگر ایسی صورتِ حال پیش آئی تو پاکستان میں گندم کی کمی کے باعث فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے نے کھاد کی قلت پر حکومت کا مؤقف لینے کے لیے وزیرِ خوراک پنجاب سے بھی رابطے کی کوششیں کیں لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

کسانوں کی رائے میں حکومت کو کھاد، بجلی اور ڈیزل کی قیمتوں پر کسانوں کو سبسڈی دینی چاہیے جس سے ان کی مشکلات خاصی حد تک کم ہو جائیں گی۔ کسانوں کی رائے میں حکومت کو رعایتی نرخوں پر مشینری اور ٹریکٹر کسانوں کو مہیا کرنے چاہئیں۔

کھاد ڈیلروں کی رائے میں حکومت کو کھاد کی مارکیٹ کو کھلا رکھنا چاہیے جس سے اِس کی دستیابی آسان ہو گی اور قیمتتیں بھی مستحکم رہیں گی۔

XS
SM
MD
LG