رسائی کے لنکس

'اگر سپریم کورٹ پارلیمان کے دائرہ کار میں مداخلت کرے گی تو دوسرے ادارے اس کی حدود میں مداخلت کریں گے‘


پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم نہیں کرنا تو پھر الیکشن کا مذاق بھی ختم کردیں۔ اگر سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت کرے گی تو پھر دوسرے ادارے بھی ان کی حدود میں مداخلت کریں گے۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پرویز اشرف نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے اور اگر قدغن لگا دی جائے گی کہ صرف وہی قانون سازی ہوگی جو سپریم کورٹ کہے گی۔ ان کے بقول, پھر تو پارلیمنٹ کی آئینی بالادستی تو ختم ہوگئی۔

پرویز اشرف کا کہنا تھاکہ پھر انتخابات کا مذاق ختم کرنا چاہیے اور آئین سازی بھی انہیں (سپریم کورٹ) کو کرنی چاہیے۔ یہ کہاں کا اصول ہے کہ قانون بھی وہ (سپریم کورٹ) بنائے اور اس پر فیصلے بھی وہی کریں؟

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس صورت میں پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی اداروں کی حدود میں مداخلت کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرسکتی ہے۔

پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق قانون سازی کی کہ یہ فیصلہ صرف چیف جسٹس کے بجائے تین سینئر جج کریں تو سپریم کورٹ نے اس بل کو قانون بننے سے پہلے ہی روک دیا۔ ان کے بقول پارلیمان کو سرنگوں کرنے کا یہ رویہ بہت خطرناک ہے۔

پارلیمان کی قانون سازی کا حق تسلیم نہیں کرنا تو الیکشن کا مذاق بھی ختم کریں: اسپیکر قومی اسمبلی
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:39 0:00

خیال رہے کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان اس وقت تناؤ کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پارلیمان نے سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کے خلاف قرارداد منظور کی ہے تو سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر عمل درآمد روکنے کے احکامات دے رکھے ہیں۔

اس کے علاوہ از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے اختیارات کے ’غیر منصفانہ‘ استعمال پر چیف جسٹس اپنے ہی ساتھی ججز کی تنقید کی زد میں آئے جس کے بعد پارلیمان نے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کی قانون سازی کی۔

’فل کورٹ سے ابہام دور ہوسکتا ہے تو قباحت کیا ہے؟‘

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ یہی سپریم کورٹ جو عوام کے منتخب نمائندوں کو قانون سازی سے روک رہی ہے، نے فوجی آمر پرویز مشرف کو قانون میں ترمیم کا حق دے دیا تھا۔ ان کے بقول ریاست کے آئینی اداروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یہ بل مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

پرویز اشرف کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور کون سے عوامل اس کے پیچھے کار فرما ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ کے ججز پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غور کریں کہ کہیں ان کے طرزِ عمل کی وجہ سے ملکی مفاد کو تو نقصان نہیں پہنچ رہا۔ ان کے بقول کہیں ہم اپنی پارلیمان کو خود ہی بے وقت تو نہیں کر رہے جس کے بہت خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے جہاں سے آئین نے جنم لیا اور آئین پاکستان کے مطابق اقتدار کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا، کسی اور ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب وکلا تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے معاملے کو سننے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے تو اس میں کیا قباحت تھی کہ تین یا سات کی بجائے 17 ججز اسے سن لیتے۔

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال: عوام کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:09 0:00

ان کا کہنا تھا کہ اگر اتنی سے بات سے ابہام دور ہوسکتا ہے، ملک میں پیدا ہیجان کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے تو فل کورٹ کیوں نہیں بنایا گیا۔وہ کہتے ہیں کہ انصاف پر مبنی فیصلوں کو ہر شہری اور ادارے پر لازم ہے کہ قبول کرے۔

‘عدلیہ کو پارلیمان سے جواب الجواب نہیں دینا چاہیے’

اس سوال پر کہ سپریم کورٹ کے جس رویے پر وہ شکوہ کررہے ہیں، کیا پارلیمان بھی جواباً وہی رویہ اپنائے ہوئے نہیں ہے؟ پر پرویز اشرف نے کہا کہ اگر کسی پر حملہ کیا جائے گا تو وہ جواب تو دے گا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اقدامات پر پارلیمان کو جواب الجواب نہیں دینا چاہیے لیکن اگر عدلیہ کی جانب سے متنازع اقدامات سامنے آتے ہیں تو ایوان سے اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔

ان کے بقول یہ جھگڑا کسی کے مفاد میں نہیں کیوں کہ اداروں کے درمیان بد اعتمادی، بدانتظامی کو جنم دیتی ہے اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی احترام کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے پرویز اشرف نے کہا کہ قوم ابھی تک اس بات پہ ابہام کا شکار ہے کہ فیصلہ چار کے مقابلے تین ججز کا ہے یا دو،تین کا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیف جسٹس اس بحرانی صورتِ حال کو سلجھائیں گے۔

امریکہ کا عمران خان کی حکومت گرانے میں کوئی کردار نہیں تھا، کانگریس مین بریڈ شرمن
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:02 0:00

اس سوال پر کہ چیف جسٹس کیا اقدامات کریں تو صورتِ حال میں بہتری آسکتی ہے؟ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چیف جسٹس پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور شدت کے ماحول میں کمی لائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ اپنے اقدامات کی وجہ سے کل انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

‘سپریم کورٹ میں تقسیم آجائے تو پھر عدلیہ نہیں چل سکتی’

پرویز اشرف کہتے ہیں کہ سیاست میں تقسیم ضروری ہے کیوں کہ اختلاف رائے کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی لیکن اگر یہ تقسیم سپریم کورٹ میں آجائے تو پھر عدلیہ نہیں چل سکتی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ انتخابات کے معاملے پر حکومت کو بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دان اپنے معاملات خود بیٹھ کر طے کرتے ہیں اور سیاسی معاملات کو کبھی بھی عدالت میں نہیں لے جانے چاہیئں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک جماعت پارلیمان میں نہیں بیٹھنا چاہتی تو پارلیمنٹ سے باہر بھی سیاسی رہنماؤں کے درمیان بات چیت ہوسکتی ہے۔

اس سوال پر کہ عدالتی احکام نہ ماننے پر عدلیہ یوسف رضا گیلانی کی طرح وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی منصب سے ہٹا تو نہیں دے گی؟ اس کے جواب میں پرویز اشرف نے کہا کہ عدالتی احکامات پر منتخب وزیرِ اعظم کو گھر نہیں بجھوایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا آئینی و جمہوری طریقہ عدم اعتماد ہے جس طریقے سے پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کو ہٹایا گیا۔

‘آرمی چیف نے آئین سے وابستگی اور پارلیمان کی سربلندی پر یقین کا اظہار کیا’

آرمی چیف کی قیادت میں عسکری حکام کی جانب سے قومی اسمبلی اراکین کو قومی سلامتی کے حوالے سے حالیہ بریفنگ پر گفتگو کرتے ہوئے پرویز اشرف نے کہا کہ جنرل سید عاصم منیر نے بہت واضح انداز میں ملک کو در پیش خطرات اور ان سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر بریفںگ دی ہے جو کہ قانون دانوں کے لیے باعثِ اطمینان تھی۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے جس طرح آئین کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا، جس طرح پارلیمان کی سربلندی پر اپنے یقین کا اظہار کیا یہ اراکین پارلیمنٹ کے لیے باعث تقویت تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے خیالات رکھنے والی قیادت کی پاکستان کی فوج کو بہت ضرورت ہے۔اس سوال کہ آرمی چیف کا موجودہ حالات میں پارلیمنٹ آنا کیا عدلیہ کو کوئی پیغام تھا؟ کے جواب میں پرویز اشرف نے کہا کہ عسکری قیادت پہلے بھی پارلیمنٹ آتی رہی ہے اور قومی سلامتی کے امور سے آگاہ کرتی رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دفاعِ وطن سے متعلق سوال کرنا اراکین پارلیمنٹ کا حق ہے اور اس حق کو فوجی قیادت نے بخوشی تسلیم کیا ہے تو انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔

‘دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی’

فوجی آپریشن کے حوالے سے سوال پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں ہونے جارہا البتہ دہشت گردی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف افواج کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

پرویز اشرف نے کہا کہ افواج پاکستان نے بہت کم وسائل میں بے پناہی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کو شکست دی ہے جس کے باعث آج ملک میں ہر جگہ ریاست کی عمل داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں جب ملک کی سلامتی کو کئی خطرات درپیش ہیں، افواج پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے اجتناب برتنا چاہیے کیوں کہ دانستگی یا غیر دانستگی میں یہ عمل ملک کو کمزور کرنے میں مددگار ہوگا۔

تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کے استعفوں پر بات کرتے ہوئے پرویز اشرف نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد نے ان سے ملاقات میں فوری استعفے منظور کرنے پر زور دیا اور اس معاملے پر وہ عدالت بھی چلے گئے کہ اسپیکر ان کے استعفے منظور نہیں کر رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے استعفے منظور کر لیے تو پی ٹی آئی دوبارہ عدالت چلی گئی کہ ان کے استعفے کیوں منظور کیے گئے ہیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدے میں جلد پیش رفت کی توقع، عائشہ غوث پاشا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

انہوں نے کہا کہ یہ کیا انداز سیاست ہے کہ پہلے کہتے ہیں استعفے منظور کرو جب منظور کر لیے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کیوں منظور کیے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے تھے کہ الیکشن کراؤ جب الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 33 حلقوں کا انتخابی شیڈول جاری کیا تو یہ پھر عدالت چلے گئے کہ انتخاب کو روکا جائے۔

پرویز اشرف نے کہا کہ انہوں نے جن پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرلیے ہیں۔ ان کی اسمبلی واپسی ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس حوالے سے فیصلے پر نظرِ ثانی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ اگر عدالت پی ٹی آئی اراکین کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو وہ اسمبلی واپس آسکتے ہیں۔

پہلے سیاسی درجہ حرارت کو کم کیا جائے’

اس سوال کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں نہیں ہوگی تو مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کے جواب میں پرویز اشرف کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت پارلیمنٹ سے باہر بھی ہوسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ بات چیت سے پہلے سیاسی درجۂ حرارت کو کم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ افراتفری کے ماحول اور ایک دوسرے کا چہرا نوچ کہ کوئی سیاست نہیں کرسکے گا۔

پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات دو ماہ قبل یا دو ماہ بعد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے کہ انتخابات پر امن اور شفاف ماحول میں ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں انتخابات ہو بھی جائیں تو کوئی ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اگرچہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات وفاق سے علیحدہ ہونے کی آئین میں گنجائش موجود ہے لیکن یہ وفاقیت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات الگ الگ ہونے کے تجربے میں بہت سے قباحتیں سامنے آتی رہی ہیں اور اب تو گلگت بلتستان اور کشمیر کی اسمبلیاں بھی تواتر سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کے انتخاب بھی وفاق کے ساتھ منعقد کیے جائیں۔

XS
SM
MD
LG