رسائی کے لنکس

چمن سرحد: 'افغان باشندوں کا غیر قانونی داخلہ روکیں گے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں پاک، افغان سرحد بابِ دوستی پر طالبان کے کنٹرول کے باوجود دونوں ملکوں سے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ حکام اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موقع سے فائدہ اُٹھا کر غیر قانونی طور پر بھی کچھ لوگ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔

اس صورتِ حال پر حکام کا کہنا ہے کہ چمن میں پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور قانونی دستاویزات کے بغیر کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

گل آغا کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے ہے۔ ان کے کچھ رشتہ دار بلوچستان کے ضلع چمن میں رہتے ہیں اور وہ تقریباً ایک سال بعد اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آئے ہیں۔

گل آغا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ افغانستان میں سرحد کے قریب رہتے ہیں اس لیے انہیں 'تزکیرہ' یعنی سرکاری دستاویزات پر پاکستان آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 'تزکیرہ' پر رشتہ داروں سے ملنے پاکستان میں داخل تو ہوئے ہیں مگر وہ چمن شہر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

گل آغا نے بتایا کہ گو کہ افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا ہے مگر پھر بھی کچھ لوگ طالبان سے خوف زدہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی جانب سے سرحد پر اس وقت بھی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر قانونی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سرحد سے ہی واپس کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے سرحدی شہر چمن میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بھی قومی شناختی کارڈ پر افغانستان کے علاقے ویش منڈی تک جانے کی اجازت ہے۔

چمن میں رہائش پذیر پیشتر افراد زندگی کا گزر بسر سرحدی کاروبار سے کرتے ہیں۔ ان چھوٹے کاروباری افراد کو اکثر یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں سرحد بند نہ ہو جائے۔

ایسے ہی ایک چھوٹے کاروباری شخص 35 سالہ قدیم خان بھی ہیں جو چمن کے علاقے محمود آباد میں رہتے ہیں۔

قدیم خان گزشتہ سات برسوں سے سرحد پر کاروبار کر کے اپنا گھر بار چلا رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی چمن میں بابِ دوستی کئی بار بند کیا گیا جس سے وہ اور ان جیسے سیکڑوں کاروباری دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان تھے۔

قدیم خان نے بتایا کہ کیوں کہ وہ چمن میں سرحدی علاقے میں رہتے ہیں اس لیے قومی شناختی کارڈ دکھا کر افغانستان کے علاقے ویش منڈی میں کاروبار کرسکتے ہیں۔

قدیم خان روزانہ صبح باب دوستی سے پیدل افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ ان جیسے کارباری افراد کو صرف 10 کلو گرام اشیائے خور و نوش سرحد پار لے جانے کی اجازت ہے۔ ان اشیا میں گھی، چائے کی پتی اور دیگر سامان شامل ہے۔

افغان شہریوں کے لیے ڈپٹی کمشنر چمن کا حکم نامہ

یاد رہے کہ افغانستان کے سرحدی علاقے اسپن بولدک پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک ہفتے تک پاک افغان سرحد کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا جسے بعدازاں کھول دیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر چمن جمعہ دار خان مندوخیل نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کے لیے ضروری ہدایات درج ہیں۔

اس ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ وہ افغان شہری جو افغانستان سے باب دوستی کے راستے افغان دستاویز تزکیرہ کے ذریعے پاکستان آتے ہیں، انہیں صرف چمن اور قلعہ عبداللہ کی حدود تک آنے کی اجازت ہے۔

حکم نامے کے مطابق یہ فیصلہ سابقہ افغان سرحدی حکام کے ساتھ ماضی میں طے ہوا تھا کہ تزکیرہ رکھنے والے افغان شہری صرف چمن یا ضلع قلعہ عبداللہ کی حدود تک آسکتے تھے اور اب بھی اسی معاہدے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

افغان شہریوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے کوئٹہ جانے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کر کے مقدمہ درج کیا جائے گا۔

دوسری جانب حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چمن سرحد سے یومیہ 15 ہزار افراد کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔

افغانستان سے غیر قانونی داخلہ روکنے کے لیے چمن بارڈر پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:02 0:00

وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیرِ داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ "اب وہ دور نہیں جب 40 سال پہلے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے اب سرحد پر مکمل باڑ لگائی گئی ہے اور اب یہ ایک محفوظ سرحد ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سرحد پر سیکیورٹی ادارے موجود ہیں لوگوں کو سائنٹیفک مشینیوں سے اسکین کر کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

ان کے بقول، "افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔ ماضی میں بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین بلوچستان میں داخل ہوئے جس کے بعد یہاں کلاشنکوف اور منشیات عام ہوئی مگر اس بار کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاک افغان سرحد پر دونوں جانب سے روزانہ 15 ہزار کے قریب لوگ آتے اور جاتے ہیں جن میں رشتہ داروں سے ملنے والوں کے علاوہ مریض اور کاروباری لوگ شامل ہیں۔

وزیرِ داخلہ بلوچستان نے اس عزم کو دہرایا کہ کسی کو بغیر دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG