رسائی کے لنکس

بھارت: تری پورہ میں مذہبی فسادات، مساجد اور املاک کو نشانہ بنانے کی اطلاعات


بھارت میں کئی روز سے بنگلہ دیش میں مندروں پر ہونے والے حملوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارت میں کئی روز سے بنگلہ دیش میں مندروں پر ہونے والے حملوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست تری پورہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ایک درجن مساجد اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم حکام کے مطابق اب تشدد کے واقعات میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ البتہ کچھ علاقوں میں اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔

یہ فسادات چند روز قبل بنگلہ دیش میں پھوٹنے والے فسادات کا شاخسانہ قرار دیے جا رہے ہیں جب ہندوؤں کی مذہبی عبادات کے دوران قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر ملک بھر میں ہندوؤں کی املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

تری پورہ بنگلہ دیش سے ملحقہ بھارتی ریاست ہے جہاں بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان واقعات کے دوران مبینہ طور پر تقریباً ایک درجن مسجدوں اور مسلمانوں کے متعدد مکانوں اور دکانوں پر حملے ہوئے اور انہیں نذر آتش کیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔

26 اکتوبر کو شمالی تری پورہ کے پانی ساگر علاقے میں دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت وشو ہندو پریشد کی جانب سے نکلنے والی ریلی نے مبینہ طور پر ایک مسجد پر حملہ کر کے اسے نذرِ آتش کر دیا گیا۔ جب کہ کئی مکانوں اور دکانوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) سبرتا چکرورتی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بعض شر پسندوں نے ایک مسجد اور اقلیتوں کے کئی مکانوں اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کی ہے۔

ان کے مطابق امن و امان کے قیام کے لیے متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد میں پولیس اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ واقعہ رووا بازار اور چمتیلا علاقے میں ہوا۔ اس سلسلے میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش تشدد کے خلاف ریلی

پانی ساگر کے سب ڈویژنل پولیس افسر سوبھک دیو کے مطابق ریلی میں کم از کم ساڑھے تین ہزار افراد شریک تھے۔

ان کے بقول یہ ریلی ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں گزشتہ دنوں ہونے والے پرتشدد واقعات کے خلاف بطور احتجاج نکالی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے سپرینڈینٹ آف پولیس بھانو پاڑا چکرورتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ وشو ہندو پریشد نے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریلی نکالی تھی۔ ریلی کے دوران ایک گروپ نے ایک مسجد پر حملہ کر دیا۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں مسلمانوں اور ہجوم کو ایک دوسرے کے مقابل آتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک دوسری ویڈیو میں ایک مسجد جلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کے پاس چند پولیس اہل کار اور کچھ لوگ کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

واقعہ کا مقدمہ درج، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی

پولیس ذرائع کے مطابق مسلمانوں کی جانب سے وشو ہندو پریشد کے خلاف شکایت کیے جانے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف ایک کیس درج کر لیا گیا ہے تاہم کسی کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ویڈیوز حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پولیس کے مطابق متاثرہ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق بعض شرپسند ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 25 اکتوبر کو بھی ریلی نکالی گئی تھی اور قابلِ اعتراض نعرے لگائے گئے تھے۔

قبل ازیں 18 اکتوبر کو گومتی ضلع میں وشو ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کی جانب سے نکالی جانے والی ریلی کے دوران شرکا اور پولیس میں ٹکراؤ ہوا تھا جس میں تین پولیس اہل کاروں سمیت 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔

مساجد کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے دعوے

مذہبی جماعت جمعیة علما ہند کی تری پورہ شاخ کی جانب سے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب کو ایک خط ارسال کر کے ان واقعات کی اطلاع دی گئی تھی۔ جس کے بعد پولیس نے اعلان کیا تھا کہ ریاست کی تمام 150 مسجدوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

جمعیة علما ہند کے تری پورہ کے صدر مفتی طیب الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ریاست میں کم از کم 12 مسجدوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ مسلمانوں کی کئی دکانوں اور مکانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق جمعیة علما کی جانب سے حکومت کو اطلاع دیے جانے کے باوجود وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی ریلیاں نکلیں اور تشدد برپا کیا گیا۔

مفتی طیب الرحمن نے بتایا کہ فی الحال امن ہے۔ انہوں نے آج پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کی۔ پولیس نے ان سے اپیل کی کہ کل جمعے کو کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونے پائے اور مسلمانوں کی جانب سے کوئی مظاہرہ نہ کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعہ کی نماز میں ریاست میں امن و امان کے لیے دعائیں کی جائیں گی۔

اس سے قبل جمعیة علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کو بہانہ بنا کر تری پورہ میں جس طرح مسجدوں اور مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر حملے کیے گئے، انہیں نقصان پہنچایا گیا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذہب کی بنیاد پر تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات سے نہ صرف سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ملک بھی کمزور ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کہیں بھی ہو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ہم نے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کی بھی مذمت کی تھی۔

خیال رہے کہ بھارت کی متعدد مسلم تنظیموں نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

اپوزیشن کا مطالبہ

اپوزیشن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) کے ریاستی سیکرٹریٹ نے ایک بیان جاری کر کے پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور قصورواروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

بیان کے مطابق وشو ہندو پریشد کی جانب سے نکالی جانے والی ریلی کے دوران تشدد برپا ہوا اور متعدد دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مقامی طور پر لوگوں میں خوف و ہراس ہے۔ اقلیتوں کی جانب سے شکایت کی گئی ہے کہ پولیس کی موجودگی میں بھی تشدد ہوا۔

پارٹی نے حکومت سے متاثرہ خاندانوں اور دکانداروں کو مالی تعاون دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ہندو تنظیموں کا مؤقف

ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریاستی ترجمان نبیندو بھٹاچاریہ نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعات ایک سازش کے تحت ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وشو ہندو پریشد ایک سماجی تنظیم ہے اور اس نے پولیس سے ریلی نکالنے کی اجازت لی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ ریاستی حکومت کو بدنام کرنے اور امن و امان کی صورتِ حال خراب کرنے کے لیے ایک سازش تیار کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

وشو ہندو پریشد کے شمالی ضلع کے صدر نانی گوپال دیب ناتھ نے دعویٰ کیا کہ مسجدوں، دکانوں اور مکانوں پر اقلیتی افراد کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں۔

بجرنگ دل کے ایک لیڈر رنائن داس نے الزام لگایا کہ منگل کو نکلنے والی ریلی کے دوران مسجد کے باہر کچھ نوجوان کھڑے تھے جو تلواروں سے لیس تھے اور انہوں نے ریلی کے شرکا کو گالیاں دی تھیں۔

خیال رہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی محض 10 فی صد ہے۔ جب کہ ہندوؤں کی بڑی تعداد بنگلہ دیش سے ترک وطن کر کے یہاں آئے والوں کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG