رسائی کے لنکس

کرونا بحران اور ٹیلی ورکنگ، امریکیوں کی بڑے شہروں سے ہجرت میں اضافہ


مین ہیٹن نیویارک کا علاقہ، جو گزشتہ سال کرونا وبا کے دوران وائرس کا ایپی سینٹر بن گیا تھا۔ فوٹو اے پی
مین ہیٹن نیویارک کا علاقہ، جو گزشتہ سال کرونا وبا کے دوران وائرس کا ایپی سینٹر بن گیا تھا۔ فوٹو اے پی

امریکی محکمہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق کرونا کی عالمی وبا کے دوران ہزاروں امریکیوں نے پرہجوم اور بڑے شہروں کو چھوڑ کر چھوٹے شہروں یا دیہاتوں میں سکونت اختیار کر لی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، ان افراد نے یہ نقل مکانی نہ ہی ملازمتوں کے نئے مواقع کی وجہ سے اختیار کی ہے اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے، بلکہ اس نقل مکانی کی وجہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور وبا کے دوران گھر سے کام کرنے کی خواہش ہے۔

وینڈربلٹ یونی ورسٹی کے محقق پیٹر ہیس لیگ نے جارجیا ٹیک یونیورسٹی کے ڈینئیل ویگلے کے ساتھ مل کر لوگوں کی نقل مکانی کی وجوہات پر تحقیق کی ہے۔ ان کی تحقیق کی اشاعت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ لیکن خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگ کافی عرصے سے بڑے شہروں سے نکل کر چھوٹے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ لیکن وبا کے دوران اس رجحان میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے دفاتر میں گھر سے کام کرنے کی ہدایات آئیں تو واشنگٹن ڈی سی میں مقیم سی سی لنڈر اپنے 770 مربع فٹ کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھیں۔

مئی 2020 میں،اس چھوٹی سی جگہ سے دو مہینے تک گھر سے کام کرنے کے بعد انہوں نے ریاست فلوریڈا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جہاں انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ ساحل سمندر پر 2 ہزار مربع فٹ کا گھر خریدا۔ اب وہ کام کرنے کے ساتھ صبح سویرے سمندر سے ابھرتے ہوئے سورج کو بھی دیکھتی ہیں اور اپنے والدین سے دور بھی نہیں۔

لنڈر کہتی ہیں کہ ’’میں نے سوچا کہ اگر میں ٹیلی ورک کر رہی ہوں تو کیوں نہ ایسی جگہ رہوں، جو خوبصورت بھی ہو، ساحل پر ہو، اور کبھی کبھی کوئی میرے لیے کھانا پکا دیا کرے۔‘‘ لیکن، بقول لنڈر، ایسا ہوا نہیں۔ ان کی والدہ ان سے ہی کھانا پکواتی ہیں۔

اعداد و شمار سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شہروں سے نواحی علاقوں میں منتقل ہونے والے افراد میں زیادہ تر ایسے ہیں، جن کی آمدن بھی زیادہ ہے اور ان کی ملازمت کی نوعیت میں لچک کی گنجائش ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو جائیداد کی خریدو فروخت کی مارکیٹ، ٹیکس وصول کرنے کے نظام پر گہرے اثرات ہوں گے۔جبکہ شہروں میں معاشی عدم مساوات بڑھ جائے گی۔

محقق پیٹر ہیس لیگ کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ رجحان وقتی ہے یا یہ مستقل رہے گا۔‘‘ ان کے مطابق، اگر گھر سے کام کرنے کا اختیار آئیندہ بھی لوگوں کو حاصل رہا، تو وہ لوگ جن کے پاس مناسب ملازمت ہے، اپنی رہائش کے لیے بہتر سے بہتر انتظام کریں گے۔

مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، نیویارک شہر سے دوسری جگہوں پر منتقل ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ 16 ہزار کے قریب ہے۔ اسی طرح لاس اینجلس اور شکاگو کی آبادی میں بھی پچھلے برس سے زیادہ یعنی 0.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی سن بیلٹ کہلانے والی جنوبی ریاستیں اور مغربی ریاستوں کے ایسے شہر جہاں زیادہ ترلوگ چھٹیوں میں وقت گزارتے تھے، ان علاقوں کی آبادی میں 3 سے 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان شہروں میں سینٹ جارج، یوٹاه، مرٹل بیچ، ساؤتھ کیرولائنا، آئیڈاہو کے علاوہ ریاست ٹیکساس کا دارالحکومت آسٹن شامل ہے۔

دونوں یونیورسٹیوں کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے برس ہونے والی بین الریاستی نقل مکانی میں سے تین لاکھ کیسز کا مطالعہ کیا ہے۔ جن میں سے دس سے بیس فیصد نقل مکانی کی وجہ عالمی وبا تھی۔

محققین کے مطابق ملازمت کی وجہ سے شہر بدلنے کی شرح، جو وبا سے پہلے 46 فیصد تھی، کم ہو کر 34.5 فیصد رہ گئی، جب کہ خاندان کے ساتھ رہنے کی خواہش کی وجہ سے نقل مکانی کی شرح آبادی کی اس منتقلی میں 24.7 سے بڑھ کر 29.9 فیصد ہو گئی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں سے ایک، وبا کے دوران سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کی خواہش ہے۔ لیکن گھر سے کام کی وجہ سے اب لوگوں کا ملازمت کی جگہ کے قریب رہنا بھی ضروری نہیں رہا۔

XS
SM
MD
LG