رسائی کے لنکس

ایران: پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کی مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے کی تنبیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران کی طاقت ور ترین فورس ’پاسدارانِ انقلاب‘ کے سربراہ نے مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ ہفتے کو سڑکوں پر احتجاج کا آخری دن ہو گا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ سیکیورٹی فورسز وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے خلاف پہلے سے زیادہ شدید کریک ڈاؤن کر سکتی ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی کا سخت ترین زبان استعمال کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مظاہرین سڑکوں پر نہ آئیں۔ ہفتہ ان مظاہروں کا آخری دن تھا۔

ایران میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پچھلے ماہ تہران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں جو کہ 1979 کے انقلاب کے بعد اقتدار میں آنے والی لیڈر شپ کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔

ایران ان مظاہروں کی پشت پناہی کا الزام مغرب اور اپنے حریف ممالک پر عائد کرتا ہے جن میں اسرائیل اور امریکہ شامل ہیں۔

حسین سلامی کا مزید کہنا تھا کہ یہ مذموم منصوبہ وائٹ ہاؤس اور صیہونی حکومت نے بنایا۔

ان کے بقول مظاہرین اپنی عزت امریکہ کو مت بیچیں اور ملک کی سیکیورٹی فورسز کے منہ پر تھپڑ مت ماریں جو آپ کا دفاع کر رہی ہیں۔

ایران میں مظاہرین نے اس طرح کے انتباہ کو ماننے سے انکار کیا ہے، جس میں خواتین نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جب کہ ہفتے کے روز مزید خونریزی اور مظاہروں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

دوسری طرف انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے لڑکیوں کے اسکول میں طالبات پر فائرنگ کی ہے۔

علاوہ ازیں ایک پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز نے صوبۂ کردستان میں میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ پر فائرنگ بھی کی گئی۔

رپورٹس کے مطابق فائرنگ سے متعدد طلبہ زخمی ہوئے جب کہ ایک طالب علم کو سر میں بھی گولی لگی تاہم خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے آزاد ذرائع سے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی۔

رپورٹس کے مطابق ہفتے کی رات کرد اکثریتی قصبے ماریوان میں مزید مظاہرے بھی ہوئے جب کہ سوشل میڈیا ویڈیوز میں مظاہرین پر سڑکوں پر گولیاں چلاتے ہوئے بھی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔

ایک ٹوئٹر صارف جس کے تین لاکھ سے زائد فالوورز ہیں، اس کی پوسٹ کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شمال مغربی شہر استارا میں مظاہرین پولیس سے قبضے میں لیے گئے سامان اور موٹر سائیکلوں کونذر آتش کر رہے ہیں۔

علاوہ ازیں دیگر ٹوئٹر اکاؤنٹس سے بھی کہا جا رہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے چند یونیورسٹی کیمپسز کو گھیرے میں لے لیا ہے جن میں مشہد کی آزاد یونیورسٹی اور تہران کی یونیورسٹی کے شعبۂ ٹیکنیکل شامل ہیں تا کہ طلبہ کو گرفتار کیا جا سکے۔

ایک اور ویڈیو کے مطابق ملک کے شمالی علاقے میں ریلی دیکھی جا سکتی ہے جس میں نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ ’’مذہبی حکمرانوں کو نکل جانا چاہیے۔‘‘

(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG