رسائی کے لنکس

امریکی کمپنی اے ایم سی سعودی عرب میں 100 سینماگھر قائم کرے گی


ریاض کے کنونشن سینٹر میں عورتیں اور خواتین اداکار جان ٹریولٹا کی پرفارمنس دیکھ رہے ہیں۔ فائل فوٹو
ریاض کے کنونشن سینٹر میں عورتیں اور خواتین اداکار جان ٹریولٹا کی پرفارمنس دیکھ رہے ہیں۔ فائل فوٹو

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق طویل وقفے کے بعد جو پہلی فلم سعودی عرب میں نمائش کے لئے پیش کی جارہی ہے وہ مارول سپرہیرو فلم ’بلیک پینتھر‘ ہے۔

سعودی دارالحکومت ریاض کے باسی ایک طویل عرصے بعد 18اپریل سے اپنے شہرمیں سینما سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔

جی ہاں۔۔سعودی عرب میں 35 سال بعد پہلے نئے سینما گھر کے دروازے شائقین کے لئے رواں ماہ کھل جائیں گے۔ یہی نہیں سعودی عرب اور اے ایم سی انٹرٹینمنٹ ہولڈنگز کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کی رو سے آئندہ پانچ سالوں میں کمپنی پورے ملک میں 40 تھیڑز قائم کرے گی۔

سعودی عرب میں مقیم سینیر صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ ’امریکی کمپنی ’اے ایم سی‘ کو سعودی عرب میں سینما ہال کھولنے کا پہلا لائسنس جاری کردیا گیا ہے۔یہ کمپنی 18 اپریل تک ریاض میں پہلا سینما گھر قائم کر دے گی۔

سعودی جنرل انوسٹمنٹ فنڈ اور اے ایم سی کمپنی کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت امریکی کمپنی آئندہ 5 سال میں سعودی عرب میں 40 سینما گھر قائم کرے گی۔

معاہدے کے مطابق یہ سینماہالز سعودی عرب کے 15 مختلف شہروں میں کھولے جائیں گے۔ معاہدے کے تحت سن 2030ء تک ’اے ایم سی‘ سعودی عرب میں 100 سے زیادہ سینما گھر قائم کرے گی۔

کمپنی ذرائع کاکہنا ہے کہ سعودی عرب کی 70 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔کمپنی سعودی مارکیٹ کا 50 فیصد حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق طویل وقفے کے بعد جو پہلی فلم سعودی عرب میں نمائش کے لئے پیش کی جارہی ہے وہ مارول سپرہیرو فلم ’بلیک پینتھر‘ ہے۔

رپورٹ کے مطابق مختلف عوامی مقامات کے برعکس سینما گھروں میں خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ انتظام نہیں کیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں 1970کے عشرے تک سینما گھر موجود تھے جنہیں بعد میں مذہبی راہنماؤں کے احکامات پربند کردیا گیا تھا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتصادی اورسماجی اصلاحات پروگرام کے تحت سعود ی حکومت نے 2017 میں سینما گھروں پرعائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

سعودی عرب میں مغربی میڈیا اورکلچر کوپسند کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ سینما پرپابندی کے باوجود ہالی وڈ کی فلمیں اور نئی ٹی وی سیریز باقاعدگی سے گھروں میں لوگ دیکھتے اوران پر تبصرے کرتے ہیں۔

اے ایم سی کے چیف ایگزیکٹو عدنان آرون نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ پہلا سینما گھرکنگ عداللہ فنانشل ڈسٹرکٹ کی اس عمارت میں بنایا گیا ہے جہاں پہلے ایک سمفنی ہال بنانے کا منصوبہ تھا۔مین تھیٹرمیں 500 لیدرسیٹیں ،آرکسٹرا اور بالکونی لیولز ہیں جبکہ باتھ رومز ماربل کے ہیں۔ گرمیوں کے وسط تک تھیڑ میں مزید تین اسکرینز کا اضافہ کیا جائیگا۔ عدنان کے بقول یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوبصورت سینما گھر ہے اور پوری عمارت ہی ڈرامیٹک ہے۔

سعودی عرب کی 32 ملین آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان نوجوانوں کو سینما کی تفریح فراہم کرنے کے لئے سعودی حکومت 2030 تک ملک بھر میں 350 سینما گھر اور 2500 اسکرینز لگانا چاہتی جس کے ٹکٹوں کی فروخت سے ایک بلین ڈالرسالانہ کی آمدنی متوقع ہے۔

سعودی عرب کے وزیراطلاعات اورثقافت اعواد العوادی کاکہنا ہے کہ سینما گھرو ں سے مقامی معیشت میں بہتری آئی گی اور روزگارکے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
اے ایم سی سعودی عرب کے خودمختار’ویلتھ فند پبلک انوسٹمنٹ فنڈ‘(پی اے ایف)سے ملکر سینما گھرتعمیرکرے گی۔کچھ اورتھیٹرآپریٹرزبھی سعودی عرب میں سینما گھربنائیں گے لیکن کلیئرنس ملنے کے بعد۔

یہ کہنا ہےامریکی نیشنل ایسوسی ایشن آف تھیٹراونرزکے صدرجون فتیان کا۔انہوں نے مزید بتایا کہ دسمبر میں سعودی حکام سے ملاقاتوں میں فلم اسکرین سے متعلق میٹریل اوردیگرامورپربات چیت کی تھی۔انہیں امید ہے کہ زیادہ ترہالی وڈ فلموں کونمائش کی اجازت مل جائے گی جبکہ کچھ کوایڈیٹنگ کی ضرورت ہوگی۔

عدنا ن آرون نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ فلموں کے جوورژن دبئی اورکویت میں دکھائے جاتے ہیں انہیں سعودی عرب میں بھی نمائش کی اجازت مل جائے گی ۔

ہالی وڈ نے بہت پہلے مڈل ایسٹ کی حساسیت کے پیش نظراپنی فلم پروڈکٹ کوایڈجسٹ کرلیا تھا اورہالی وڈ کے تمام بڑے اوراہم اسٹوڈیوزکی فلمیں پورے مڈل ایسٹ میں دکھائی جاتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG