سعودی عرب کی حکومت نے کہا ہے کہ بدعنوانی کے تدارک کی جاری مہم کے دوران کاروباری شخصیات اور سرکاری اہل کارو سے مالیاتی تصفیہ ادائگیوں میں 100 ارب ڈالر برآمد کیے گئے ہیں۔ یہ بات اٹارنی جنرل نے منگل کے روز جاری ہونے والے ایک اعلان میں بتائی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے، ’رائٹرز‘ نے کہا ہے کہ اِس اعلان کو ولی عہد محمد بن سلمان کی ایک سیاسی فتح قرار دیا جا رہا ہے، جنھوں نے گذشتہ نومبر میں بدعنوانی کے خلاف سخت اقدام کا اعلان کیا تھا، جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ادائگیوں کے تصفیوں میں تقریباً 100 ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔
سخت اقدام کے نتیجے میں درجنوں اعلیٰ سرکاری اہل کار اور کاروباری شخصیات زیر حراست ہیں، جن میں سے متعدد تفتیش کے لیے ریاض کے پُر تعیش رٹز کارلٹن ہوٹل میں رکھا گیا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ زیر حراست 100 سے زائد مشتبہ افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔
ارب پتی شہزادے، الولید بن طلال، جو ’کنگڈم ہولڈنگ‘ کے عالمی سرمایہ کار ہیں؛ اور ولید الابراہیم جو ’ایم بی سی‘ کے بااثر علاقائی نشریاتی ادارے کے سربراہ ہیں، کو گزشتہ ہفتے رہا کیا گیا تھا۔
ایک بیان میں شیخ سعود المجیب نے کہا ہے کہ ’’مقدمات کے تصفیے کے بعد حاصل ہونے والی رقوم کا اندازہ 400 ارب ریال سے زیادہ (106 ارب ڈالر) لگایا گیا ہے، جن میں مختلف قسم کے اثاثہ جات شامل ہیں، جن میں جائیداد، کاروباری ادارے، سکیورٹیز، نقدی اور دیگر اثاثہ جات شامل ہیں‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ اگر ان رقوم کی ادائگی کامیابی کے ساتھ وصول پا جاتی ہے تو یہ حکومت کے لیے ایک گرانقدر کارگزاری ہوگی، جسے تیل کے نرخ میں کمی کے باعث مالیاتی تنگی کا سامنا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں 195 ارب ریال کے خسارے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
مجیب نے بتایا کہ چھان بین کے نتیجے میں، مجموعی طور پر 381 افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے، جن میں سے کچھ شہادتیں یا ثبوت فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ 56 سے زائد افراد تصفیے کےمرحلے تک نہیں پہنچ پائے، جس کے باعث وہ ابھی تک زیر حراست ہیں؛ جن کی تعداد گذشتہ ہفتے 95 تھی۔