رسائی کے لنکس

سعودی عرب روس سے اچھے تعلقات کا خواہاں؛’ مذاکرات کے دروازے کھلے رہیں گے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس کے روس سے اچھے تعلقات سب کے مفاد میں ہیں اور اس سے ماسکو سے مذاکرات کے دروازے کھل رہے ہیں۔

جرمنی کے شہر میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کا کہنا تھا کہ سعودی عرب روس کے ساتھ اچھے تعلقات اس لیے رکھ رہا ہے کہ کیوں کہ ایسا کرنا سب کے لیے اچھا ہے۔ اس سے مذاکرات کے دروازے کھلے رہیں گے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ہفتے کو میونخ سیکیورٹی فورم میں شہزادہ فیصل بن فرحان کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی تعاون کونسل( جی سی سی) اس حوالے سے متحد ہے کہ روس اور یوکرین کے تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات ہونے چاہیئں۔

گزشتہ برس فروری میں روس کے یوکرین پر حملے اور اس کے مختلف علاقوں پر قبضے سے شروع ہونے والے تنازعے کے حوالے سے شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کیف اور ماسکو کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے۔ تاہم، روس اور یوکرین کے درمیان معاملات پیچیدہ ہیں۔

ان کے مطابق، دونوں کی جانب سے ایسی کوئی رضا مندی سامنے نہیں آئی کہ وہ کسی قسم کی گفت و شنید کے لیے تیار ہیں۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے قومی مفادات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ چند معاملات پر متفق نہیں۔ تاہم، دونوں ممالک خطے میں سیکیورٹی اور استحکام کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔

'شام کو تنہا کر کے خطے میں مقاصد کا حصول ممکن نہیں'

سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عرب دنیا میں اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے کہ شام کو الگ تھلگ کر کے مطلوبہ مقاصد کا حصول ممکن نہیں ۔

ان کے مطابق دمشق کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ہے تا کہ پناہ گزینوں کی واپسی کے معاملے سمیت انسانی بنیادوں پر سامنے آنے والے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

میونخ سیکیورٹی فورم میں سعودی عرب کے اعلیٰ شخصیت شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کا تبصرہ شام میں ایک دہائی قبل شروع ہونے والی خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں سے مختلف ہے۔

اس وقت سعودی عرب سمیت متعدد عرب ریاستوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہتھیار اٹھانے والے باغیوں کی حمایت کی تھی۔

سعودی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ خلیجی تعاون کونسل سمیت عرب دنیا میں یہ اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ موجودہ حکمتِ عملی قابلِ عمل نہیں ہے۔

وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ تنازعے کے سیاسی حل اور زیادہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی راستہ نہ ہونے کی صورت میں ایسا فارمولا بنانا چاہیے جس سے شام کی پڑوسی ریاستوں میں پناہ گزینوں کی تکالیف کم ہو سکیں۔ ان کے بقول شام اور ترکیہ میں زلزلے کے بعد مسائل کو حل کرنے کے لیے حکمت عملی وضع ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں شام کی حکومت کے ساتھ بات چیت کے دور سے گزرنا پڑے گا، جس سے کم از کم اہم ترین مقاصد حاصل ہو سکیں جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ گزینوں کی واپسی شامل ہے۔

خیال رہے کہ ترکیہ اور شام میں زلزلے کے سبب 46 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں جب کہ سعودی عرب نے ابتدائی طور پر شام میں حکومت مخالف قوتوں کے زیر قبضہ علاقوں میں امداد بھیجی تھی۔ بعد ازاں ریاض نے بشار الاسد کی حکومت کے ماتحت علاقوں کے لیے بھی امداد روانہ کی۔

شام میں بشار الاسد کی حکومت کی فورسز نے حزبِ اختلاف کے زیرِ قبضہ متعدد علاقوں پر دوبارہ کنٹرول روس، ایران اور ایران نواز لبنانی تنظیم حزب اللہ کی مدد سے حاصل کیا تھا۔

بشار الاسد کی حکومت سے بیشتر عرب ممالک نے تعلقات منقطع کر لیے تھے البتہ حالیہ برسوں میں اس حوالے سے تبدیلی نظر آ رہی ہے اور کئی ممالک کے دمشق سے رابطوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں جن میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہے البتہ کئی ممالک اس حوالے سے انتہائی محتاط ہیں۔ کیوں کہ امریکہ نے شام پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں جس سے معاملہ کافی پیچیدہ ہو رہا ہے۔

ایران کا معاملہ

میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں ایران سے جوہری معاملات پر مذاکرات پر سعودی وزیرِ خارجہ شہزاد فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ خلیجی تعاون کونسل کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس معاملے کے حل کے لیے مذاکرات ہونے چاہیئں۔

ان کے مطابق وہ جوہری معاہدے میں واپسی چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے جامع نقطۂ نظر اور خلیجی شراکت داری ضروری ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے خبردار بھی کیا کہ ایران کا جوہری ہتھیاروں کا حصول دیگر ممالک کو اس مقابلے میں شامل ہونے اور اس حوالے سے آپشن تلاش کرنے پر مجبور کرے گا۔

XS
SM
MD
LG