رسائی کے لنکس

 فلسطینی مسئلہ حل ہو گیا تو سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرسکتا ہے: سعودی وزیر خارجہ


 سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے ایک اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ، فوٹو اے ایف پی ،
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے ایک اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ، فوٹو اے ایف پی ،

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے منگل کو کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کو اس صور ت میں تسلیم کر سکتا ہے اگر کوئی ایسا جامع معاہدہ طے ہو جائے جس میں فلسطینیوں کی ریاست کے قیام کے لیے بھر پور مذاکرات شامل ہوں۔

انہوں نے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم میں یہ بات ایسے میں کی ہے کہ جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

شہزادہ فیصل بن فرحان نے ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فور م کے ایک پینل سے خطاب کرتے ہوئے کہا،" ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ علاقائی امن میں اسرائیل کے لیے امن شامل ہے، لیکن ایسا صرف ایک فلسطینی ریاست کے ذریعے، فلسطینیوں کے لیے امن کے ذریعے ہو سکتا ہے ۔"

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا سعودی عرب اس کے بعد اسرائیل کو کسی وسیع تر سیاسی معاہدے کے حصے کے طور پر تسلیم کرے گا۔ تو انہوں نے کہا ،" یقینی طور پر۔ "

شہزادہ فیصل نے کہا کہ علاقائی امن کو ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کے ذریعے حاصل کرنے کے لیے ہم در حقیقت امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں اور یہ غزہ کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے ۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے ایک سیشن کے دوران اسٹیج پرپہنچ رہے ہیں ، فوٹو اے ایف پی ، 16 جنوری 2024
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے ایک سیشن کے دوران اسٹیج پرپہنچ رہے ہیں ، فوٹو اے ایف پی ، 16 جنوری 2024

اسرائیل کے لیے سعودی عرب کیوں اہم ہے

اسرائیل کے لیے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ایک بڑا انعام ہو گا اور اس سے مشرق وسطیٰ میں جیو پولیٹیکل صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے ۔

سنی مسلمان سلطنت کا،جو عرب دنیا میں سب سے طاقتور ملک اور اسلام کے بیشتر مقدس مقامات کی سر زمین ہے، دنیا بھر میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے ۔

ریاض کی سوچ سے واقف دو ذرائع نے کہا کہ گزشتہ اکتوبر میں اسرائیل اور عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس میں جنگ چھڑنے کے بعد سعودی عرب نے اپنی سفارتی ترجیحات میں تیزی سے تبدیلی کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے متعلق امریکی حمایت والے منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

ان دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ سعودی ۔ اسرائیل تعلقات معمول پر لانے کے ان مذاکرات میں کچھ تاخیر ہو گی جنہیں امریکی حمایت حاصل ہے ۔ ان مذاکرات کو سلطنت کے لیے اس امریکی دفاعی معاہدے کے حصول کی جانب کلیدی قدم سمجھا جاتا ہے جسے وہ بدلے میں ملنے ولا حقیقی انعام سمجھتی ہے ۔

ریاض میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ایک کثیر فریقی میٹگ کے دوران فوٹو اے پی ، 8 جون 2023
ریاض میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ایک کثیر فریقی میٹگ کے دوران فوٹو اے پی ، 8 جون 2023

مذاکرات تعطل کا شکار کیوں ہوئے؟

سات اکتوبر سے قبل جب ایران کے حمایت یافتہ جنگجووں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، تو اسرائیلی اور سعودی رہنما دونوں یہ اشارہ دے چکے تھے کہ وہ ایسے سفارتی تعلقات کی جانب بتدریج بڑھ رہے ہیں جو مشرق وسطی کو نئی شکل دے سکتے ہیں ۔

فلسطینی ان علاقوں میں جن پر اسرائیل نے 1967 کی ایک جنگ میں قبضہ کر لیا تھا، ایک ایسی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں جس کا دار الحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل کے ساتھ امریکی سر پرستی میں مذاکرات ایک عشرے سے زیادہ عرصے قبل کئی رکاوٹوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئے ۔

ان مذاکرات میں حائل ہونے والی رکاوٹوں میں مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری اور مغرب کے حمایت یافتہ فلسطینی حکام اور حماس کے اسلام پسندوں کے درمیان تنازع ہے جو اسرائیل کے ساتھ بقائے باہمی کو مسترد کرتے ہیں۔

جنگ بندی امن کا راستہ ہے: شہزادہ فیصل

شہزادہ فیصل نے کہا کہ ، " خطے کے ایک کہیں بہتر مستقبل کے لیے فلسطینیوں اور اسرائیل کے لیے ایک راستہ ہے اور وہ ہے امن ، اور ہم اس کے ساتھ بھرپور طریقے سے وابستہ ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ،"پائیدار امن کے لیے تمام فریقوں کی جانب سے جنگ بندی ایک نکتہ آغاز ہونا چاہیے ، جو فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ "

اسرائیل کی سخت موقف کی حامل حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کسی امکانی معاہدے کے حصے کے طور پر فلسطینیوں کو نمایاں رعائتیں دینے کے امکان کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے ۔

غزہ کی جنگ کے اثرات اور خدشات

غزہ میں جنگ سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر اس حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے اور 240 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 130 سے زیادہ افراد ابھی تک قید میں ہیں۔

حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے ، بمباری اور زمینی حملوں سے یہ چھوٹا سا ساحلی علاقہ کھنڈر بن گیا ہے اور فلسطین کے صحت کے عہدے داروں کے مطابق 24000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ۔

اس جنگ نے علاقائی عدم استحکام کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ اپنی سرحد کے ساتھ تواتر سے جھڑپیں کی ہیں جب کہ ایران نواز ملیشیاؤں نے عراق میں امریکی اہداف پر حملے کیے ہیں ۔

یمن میں ایران سے منسلک حوثیوں نے بحیرہ احمر میں ہونے والی جہاز رانی میں رخنہ اندازی کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک اسرائیل غزہ پر اپنی بمباری بند نہیں کرتا۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے ۔

فورم

XS
SM
MD
LG