رسائی کے لنکس

سوات میں شدت پسندوں کی موجودگی، مٹہ میں فوجی چوکیاں قائم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کی خبروں پر سیکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں فوجی چوکیاں قائم کر لی ہیں۔ اس سے قبل پیر کو سیکیورٹی فورسز کے دستوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے دستے منگل کو مالم جبہ اور مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں گشت کر رہے ہیں جب کہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مٹہ کے پہاڑی سلسلوں کنالہ اور بالاشور میں بھی فوج کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔

سوات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سوات کے سیدو شریف ایئرپورٹ سے آگے مٹہ تک جانے والی شاہراہوں پر برہ بانڈی سے وینٹی تک مختلف مقامات پر سیکیورٹی فورسز نے چیک پوسٹس قائم کر کے تلاشی کا عمل تیز کر دیا ہے۔

مٹہ کے علاوہ ایک اور سیاحتی علاقے مالم جبہ کاور منگلور میں بھی سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔ منگلور سے ملحقہ چارباغ قصبے سے کالام جانے والی سڑک کے مختلف مقامات پر بھی سیکیورٹی فورسز نے عارضی چوکیاں قائم کر لی ہیں۔

سوات کے صحافی عیسیٰ خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مٹہ اور مالم جبہ کے علاوہ تحصیل کبل اور مرغزار کے پہاڑی علاقوں میں بھی سیکیورٹی فورسز نے پیش قدمی کی ہے۔اُن کے بقول جہاں جہاں سیکیورٹی فورسز کے دستے پہنچ رہے ہیں، وہاں انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔

سوات میں سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی اطلاعات کے باوجود سرکاری سطح پر علاقے میں کوئی فوجی آپریشن شروع کرنے کی تصدیق نہیں کی گئی۔ البتہ یہ اقدامات حالیہ دنوں میں سوات اور اس کے گردونواح میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات پر کیے جا رہے ہیں۔

مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ اگر بدھ تک ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجوؤں نے علاقے خالی نہ کیے تو فوجی کارروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

سوات پریس کلب کے سابق صدر شہزاد عالم کہتے ہیں کہ مینگورہ سمیت سوات کے بیشتر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

شدت پسندی کی کارروائیوں میں حالیہ تیزی

سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات اگست کے پہلے ہفتے میں سامنے آئی تھیں، جب ایک جھڑپ کے دوران دو فوجی اور ایک پولیس افسر کو مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں جنگجو فوجی اہلکاروں سے سوال و جواب کر رہے ہیں جب کہ قریب ہی ایک ڈی ایس پی رینک کا پولیس افسر زخمی حالت میں موجود تھا۔

بعدازاں روایتی جرگے کے نتیجے میں لگ بھگ 20 گھنٹوں بعد ان افراد کی رہائی عمل میں آئی تھی۔

جمعے کو عسکریت پسندوں نے مٹہ کے ایک نواحی گاؤں میں سابقہ امن کمیٹی کے سربراہ محمد ادریس خان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنا کر دو پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے دوسرے روز چارباغ قصبے سے ملحقہ علاقے دکوڑک میں سابقہ امن کمیٹی کے ایک رکن حاجی محمد شیریں کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تشدد کے ان واقعات کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے جب کہ عسکریت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کے مطالبے بھی سامنے آ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سیکیورٹی فورسز نے 2009 میں سوات میں تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کیا تھا جس کے بعد حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ علاقے کو دہشت گردوں سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی تھی، تاہم اگست کے بعد ایک بار پھر شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے اور لوگوں کی جان مال کے تحفظ کے لیے تمام آئینی اور قانونی اختیارات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ وفاقی حکومت اور فوج کے اختیار میں ہے۔

XS
SM
MD
LG