رسائی کے لنکس

سینیٹ نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کے طریقۂ کار کی منظوری دے دی


سینیٹ نے وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چیف آف اسٹاف مکی ملوانی کو گواہی دینے کے لیے طلب کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ (فائل فوٹو)
سینیٹ نے وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چیف آف اسٹاف مکی ملوانی کو گواہی دینے کے لیے طلب کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے ایوانِ بالا (سینیٹ) نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے قواعد کی منظوری دے دی ہے۔ اکثریتی ری پبلکن ایوان نے ڈیموکریٹس کی دستاویزات اور شواہد طلب کرنے کی چار تحاریک بھی مسترد کر دی ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے تیسرے صدر ہیں جنہیں مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔ سینیٹ سے قبل ایوانِ نمائندگان نے 18 دسمبر کو صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے حق میں تحریک منظور کی تھی۔

سینیٹ میں منگل کو امریکہ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کی باقاعدہ سماعت شروع کی تو اس موقع پر ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ارکان مواخذے کے طریقۂ کار پر بحث کرتے رہے۔

ڈیموکریٹس رہنما چک اسکمر نے چار مختلف اداروں سے ریکارڈ طلب کرنے کی تحاریک پیش کیں۔ جس کے مطابق صدر ٹرمپ کے یوکرین سے معاملات سے متعلق وائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ، محکمہ دفاع اور آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ سے متعلقہ دستاویزات پیش کی جائیں۔

مذکورہ قراردادوں پر ووٹنگ کے دوران ری پبلکن اکثریتی ایوان نے 47 کے مقابلے میں 53 ووٹوں سے چاروں قراردادوں کو مسترد کر دیا۔

سینیٹ نے وائٹ ہاؤس کے قائم مقام چیف آف اسٹاف مکی ملوانی کو گواہی دینے کے لیے طلب کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔

سماعت کے دوران مواخذے کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے ری پبلکن رہنما مچ میکونل کے مجوزہ قواعد پر ڈیموکریٹس ارکان نے اعتراض اٹھایا جس کے بعد دونوں طرف سے شدید جملوں کا تبادلہ ہوا۔

مچ میکونل نے تجویز پیش کی تھی مزید گواہوں یا دستاویزات کی اجازت دینے سے قبل مواخذے کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔

سینیٹ میں صدر ٹرمپ کا دفاع کرنے والے وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ کیپلون نے صدر ٹرمپ پر عائد کردہ الزامات کی بنیاد پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس نے صدر کے مواخذے کے لیے امریکی قانون کے معیار کو سامنے نہیں رکھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ صدر ٹرمپ نے قطعی طور پر کوئی غلط کام نہیں کیا۔

صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے دوران بحث کرتے ہوئے ڈیموکریٹک کے نمائندہ اور چیف پراسیکیوٹر ایڈم شیف نے کہا کہ صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے جو ان کے مواخذے کا جواز فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف پہلے سے موجود شواہد کافی اطمینان بخش ہیں تاہم مزید گواہوں کو طلب کیا جانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ یہ پتا لگایا جائے کہ بدعنوانی میں صدر ٹرمپ کے ساتھ اور مزید کون شامل ہے۔

صدر ٹرمپ کے مواخذے کے طریقۂ کار پر طویل بحث کے بعد سینیٹ نے 47 کے مقابلے میں 53 ووٹوں سے قواعد کی منظوری دی جس کے تحت مواخذے کی کارروائی میں بحث پر تاخیر اور مقدمے کی سماعت کے وسط تک گواہوں کو بلایا جانا بھی شامل ہے۔

صدر ٹرمپ پر الزامات

صدر ٹرمپ پر پہلا الزام یہ ہے کہ اُنہوں نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنے متوقع حریف جو بائیڈن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی پر فون کر کے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ جو بائیڈن کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائیں۔

صدر پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے تعاون نہ کرنے پر یوکرین کے لیے امریکی امداد روکنے کی بھی دھمکی دی تھی۔

صدر ٹرمپ پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف ہونے والی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

وائٹ ہاؤس کے دلائل

وائٹ ہاؤس کی جانب سے سینیٹ میں پیش کردہ دلائل میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ نمائندگان قابل مواخذہ جرم کی نشاندہی میں ناکام رہا۔ صدر کے مواخذے کی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے 'طاقت کا غلظ استعمال' کی غلط تشریح کر کے اسے بڑے جرائم اور بدعنوانی سے جوڑا گیا۔

وائٹ ہاؤس نے کہا کہ محض پالیسی اختلافات پر مبنی اس کوشش سے مستقل بنیادوں پر صدر کے مواخذے کے لیے کمزور شواہد کو بنیاد بنانے کی روایت ڈال دی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جمع کرائے گئے دلائل میں کہا گیا ہے کہ 'کانگریس کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے' کا الزام بھی غیر سنجیدہ اور خطرناک ہے۔ حالانکہ صدر نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنا حق استعمال کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG