رسائی کے لنکس

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل کی جلد سماعت کا مطالبہ


ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی کا کہنا ہے کہ پندرہ ماہ سے اپیل پر سماعت نہیں ہو رہی۔ کیس میں کوئی پیش رفت ہوئے بغیر سماعت بار بار ملتوی کر دی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو)
ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی کا کہنا ہے کہ پندرہ ماہ سے اپیل پر سماعت نہیں ہو رہی۔ کیس میں کوئی پیش رفت ہوئے بغیر سماعت بار بار ملتوی کر دی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو)

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد رہائش گاہ کی نشان دہی میں امریکی خفیہ اداروں کی مدد کرنے کے الزام میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے ان کی سزا کے خلاف اپیل کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی جون 2011 سے قید ہیں اور ان کی سزا کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی کی اپیل دائر ہے۔

بدھ کو پشاور پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جمیل آفریدی کا کہنا تھا کہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) ٹریبیونل کے فیصلے کے خلاف ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ہوئی ہے مگر 15 ماہ سے اس پر سماعت نہیں ہوئی۔

ان کے بقول مختلف وجوہات کے باعث کسی پیش رفت کے بغیر سماعت بار بار ملتوی کر دی جاتی ہے۔

جمیل آفریدی نے الزام عائد کیا کہ ریاستی اداروں کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے ایڈووکیٹ جنرل اور ان کے ماتحت سرکاری وکلا سماعت سے غیر حاضر رہتے ہیں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے جمیل آفریدی کے الزامات مسترد کیے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ کا کہنا تھا کہ سرکاری وکلا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کیس کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود ہوتے ہیں۔

جمیل آفریدی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو درحقیقت القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد رہائش گاہ کی نشان دہی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر بعد میں ان کو خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے دہشت گرد تنظیم لشکرِ اسلام کے عسکریت پسندوں سے روابط اور ان کے علاج کے الزام میں سزا سنائی تھی۔

میں شکیل آفریدی کو رہا کر دیتا: پرویز مشرف
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:32 0:00

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی حکام نے 2011 میں حراست میں لیا تھا۔ جون 2012 میں خفیہ اداروں کی تحویل میں ان کا ایک سال مکمل ہونے پر خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے ایف سی آر کے تحت انہیں 33 سال قید اور تین لاکھ 30 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

اس فیصلے کے خلاف ڈاکٹر شکیل آفریدی نے کمشنر پشاور کے روبرو اپیل دائر کی تھی جس پر کمشنر نے ان کی سزا میں 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی تحفیف کی تھی۔

بعد ازاں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے کمشنر پشاور کے فیصلے کے خلاف سابقہ قبائلی علاقوں کے ایف سی آر ٹریبیونل میں اپیل دائر کی تھی جو اب قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پشاور ہائی کورٹ منتقل ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکلا کے پینل میں شامل سمیع اللہ آفریدی مارچ 2015 اور ان کی سزا میں تحفیف کرنے والے کمشنر پشاور صاحبزادہ محمد انیس نومبر 2013 میں اسلام آباد میں پراسرار طور پر قتل ہو چکے ہیں۔

جمیل آفریدی کے مطابق انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی میں مدد کی اپیل کی گئی ہے۔

انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے خلاف مقدمات میں غیر جانب دار عدالتی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق انہیں صفائی کا موقع دینا چاہیے۔

پشاور سے ملحقہ ضلع خیبر کے سابق سرجن ڈاکٹر شکیل آفریدی گزشتہ کئی برس سے ساہیوال جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل ان کو پشاور جیل میں رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کا مؤقف ہے کہ انہیں ڈاکٹر شکیل سے ملاقاتوں کی بھی اجازت نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG