رسائی کے لنکس

دعا زہرا کیس: سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کو اپنی مرضی سے فیصلے کی اجازت دے دی


سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کا تحریری فیصلہ سناتے ہوئے لڑکی کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دے دی ہے۔

بدھ کو سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے اور بعد ازاں پنجاب کے نوجوان سے شادی کرنے والی دعا زہرا کی بازیابی سے متعلق کیس کا تین صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ دعا زہرا اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہیں یا رہنا چاہیں رہ سکتی ہیں۔

اس سے قبل بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران دعا زہرا کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں ان کے والدین سے دعا کی ملاقات کرائی گئی تھی۔

ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔ دعا زہرا کے بیانِ حلفی کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہیں یا رہنا چاہیں، رہ سکتی ہیں۔ وہ اب مکمل آزاد ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے کیس کے تفتیشی افسر کو ضمنی چالان جمع کرانے کا بھی حکم دے دیا ہے۔

کیس کے تفتیشی افسر کو عمر کے تعین سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ اور عدالت میں ریکارڈ کرایا گیا بیان بھی پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے قرار دیا کہ دعا زہرا کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو دن بعد 10 جون کو دعا زہرا کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ دعا زہرا کے والدین نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران دعا زہرا کی عدالت میں پیشی کے دوران والدین سے ملاقات کرائی گئی۔ دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی نے ایک ویڈیو پیغام میں ملاقات کی تصدیق کی۔

مہدی کاظمی نے دعویٰ کیا کہ دعا زہرا ان کے گلے لگ کر روئیں اور جب بیٹی سے بات کی اور کہا کہ جج کے سامنے جاکر بیان دے دو کہ والدین کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں تو دعا زہرا نے رضامندی ظاہر کی تھی۔ البتہ ان کے اس بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

قبل ازیں پیر کو اس کیس کی سماعت پر دعا زہرہ کو شیلٹر ہوم منتقل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو ہدایت کی تھی کہ لڑکی کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے۔

پیر کو سماعت کے موقعے پر دعا زہرا نے کمرۂ عدالت میں موجود والدین سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت کے روبرو دعا زہرا نے حلفیہ بیان میں کہا تھا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور وہ خود گھر چھوڑ کر گئیں اور مرضی سے ظہیر احمد سے شادی کی۔

سماعت کے دوران جسٹس جنید غفار نے مہدی کاظمی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکی کے اغوا کا کیس تو ویسے ہی غیر مؤثر ہو گیا ہے۔ وہ خود کہہ رہی ہے کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا۔

دعا نے اپنے والدین سے ملنے سے انکار کیا تو عدالت نے کہا تھا کہ اگر بچی والدین سے ملنا نہیں چاہتی تو زبردستی نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ دعا زہرا کراچی میں شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے گزشتہ ماہ مبینہ طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور انہوں نے خود کراچی سے لاہور آ کر ظہیر نامی لڑکے سے کورٹ میرج کر لی ہے۔

دعا نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر سے شادی کی ہے اور وہ اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔

لاہور کی سیشن کورٹ نے بھی دعا زہرا کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔ تاہم دعا کے والد سید مہدی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

ایک پریس کانفرنس میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تو ان کی بیٹی کیسے 18 سال کی ہوسکتی ہے۔ مہدی کاظمی نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں گزشتہ ماہ 24 مئی کی سماعت میں پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ دعا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکی کیوں کہ پولیس کے مطابق 21 یا 22 مئی کو دعا کو خیبر پختونخوا منتقل کیا گیا ۔ پھر وہ وہاں سے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر منتقل ہو گئی تھیں۔

عدالت نے پولیس کو پہلے 30 مئی بعد میں 10 جون تک وقت دیا کہ دعا زہرا کو بازیاب کرایا جائے۔ عدالت کی جانب سے اس کیس میں پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری کو نوٹسز جاری کیے تھے کہ بچی کی بازیابی کے لیے مدد کریں۔

دعا زہرا کا معاملہ کیسے سامنے آیا؟

دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی کے مطابق ان کی تین بیٹیاں ہیں جس میں دعا زہرا سب سے بڑی ہیں۔ 16 اپریل کو ان کی بیٹی کوڑے کی تھیلیاں لے کر گھر کی بالائی منزل سے نیچے اتریں اور اس کے بعد پراسرار طور پر لاپتا ہوگئیں۔

مہدی کاظمی نے اپنے طور پر بیٹی کو تلاش شروع کی جس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے۔ ان کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے سبب پولیس مصروف تھی جس کے باعث ان کی بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

تین روز گزر گئے تو انہوں نے دیگر لوگوں سے رابطے شروع کیے اور انہیں مسئلے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تو حکام نے نوٹس لیا۔

یوں دعا کی گمشدگی کا معاملہ ہر خاص وعام کی زبان پر آگیا اور سوشل میڈیا پر دعا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تلاش کے لیے ٹرینڈز چلنے لگے۔

XS
SM
MD
LG