پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کرے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی عدالت نے جمعرات کو مقدمے کی سماعت شروع کی تو عدالت نے استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت کی اجازت کے بغیر پرویز مشرف کا نام (ایگزٹ کنٹرول لسٹ (اسی سی ایل) سے کیوں خارج کیا گیا جس پر اکرم شیخ نے کہا ایسا سپریم کورٹ کے حکم کے تحت کیا گیا ہے۔
تاہم جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ حکومت کو معلوم ہونا چاہیئے تھا کے عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 31 مارچ کو عدالت میں طلب کر رکھا تھا۔
رواں ماہ ہی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے سند ھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت اور حکومت اگر پرویز مشرف کا نام اس فہرست میں ڈالنا چاہیں تو یہ ان کا انتظامی اختیار ہے جس میں سپریم کورٹ کا کوئی کردار نہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے ان کا نام اس فہرست سے خارج کر دیا تھا اور اس کے اگلے ہی روز پرویز مشرف علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوگئے۔
جمعرات کو خصوصی عدالت نے وفاقی سیکرٹر ی داخلہ کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر اس بارے میں تحریری جواب عدالت میں جمع کرائیں۔
ادھر جمعرات کو ہی سابق صدر کے وکلاء پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری سے استثنا کی درخواست جمع کروائی جس پر خصوصی عدالت نے کہا کہ یہ درخواست اس وقت دائر کی جانی چاہی تھی جب ملزم ملک میں موجود تھے اور اس معاملے کو بھی مقدمے کی آئندہ سماعت تک ملتوی کر دیا گیا۔
اسی دوران عدالت نے ملزم کے ضمانتی ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ کیوں نا ان کے طرف سے دی گئی ضمانت کو ضبط کر لیا جائے۔ عدالت نے راشد قریشی کو آئندہ سماعت پر اس بارے میں اپنا جواب داخل کروانے کی ہدایت کی۔ واضح رہے راشد قریشی سابق صدر پرویز کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔
مقدمے کی آئندہ سماعت 19 اپریل کو ہوگی۔
سابق صدر کو 2007ء میں ملک میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی کے نافذ کرنے پر ’آئین شکنی‘ کے مقدمے کے علاوہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل اور لال مسجد آپریشن سے متعلق مقدمات کا سامنا ہے۔