رسائی کے لنکس

ویڈیو اسکینڈل غیر معمولی واقعہ ہے: سپریم کورٹ


چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ (فائل فوٹو)
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ویڈیو میں ہائی پروفائل لوگ ہیں لیکن عدالت کے سامنے سب برابر ہیں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی شامل ہیں۔

سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ویڈیو اسکینڈل غیر معمولی واقعہ ہے۔ سوال یہ ہے جائزہ کون اور کس طرح لے گا؟ ایسے واقعات سے نظامِ عدل متاثر ہونے کا کسی نے نہیں کہا۔ توہینِ عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزام غلط ہے۔

سماعت کے موقع پر محمود خان اچکزئی، طارق فضل چوہدری، جاوید ہاشمی اور رفیق رجوانہ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ جج نے فیصلہ کسی کی ایما پر دیا۔ جج نے الزامات کی تردید کر دی۔ جج نے کہا ویڈیو کے مختلف حصوں کو جوڑا گیا ہے۔ جج ارشد ملک نے اپنے بیانِ حلفی میں بلیک میلنگ کی تفصیلات بتائیں۔

منیر صادق ایڈووکیٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ پر سنگین الزامات عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔ وزیرِ اعظم، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سیاسی جماعتوں نے عدالت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

منیر صادق کے دلائل پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں، کسی کے کہنے پر نہیں۔ از خود نوٹس عدالت لیتی ہے۔ کسی کے مطالبے پر لیا گیا نوٹس سو موٹو نہیں ہوتا۔

درخواست گزار کے وکیل کو انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی درخواست بھی یہی ہے کہ ججز ڈیمانڈ پر نہ چلیں۔ لوگوں کے کہنے پر نوٹس لینے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال نہیں اٹھیں گے؟ آپ کی کیا تجویز ہے، عدالت کیا کرے؟

اس پر منیر صادق ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ عدالتی تحقیقات کرائے تو زیادہ بہتر ہے۔ انکوائری کمیشن میں جو چاہے بیان ریکارڈ کرائے۔ انکوائری کمیشن الزامات اور جواب کی سچائی کا تعین کرے گا۔

چیف جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سب وکیل، جج، پولیس اور سیاست دان برے ہیں۔ جو لوگ برے نہیں ہوتے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔ انسان کی پیدائش سے ہی سچ کی تلاش جاری ہے۔ سچ عدالت نے تلاش کیا تو اپیل لانے والے کیا کریں گے۔ کمیشن بن بھی گیا تو اس کی رائے ثبوت نہیں ہو گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ ہائی کورٹ میں اپیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کو ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں ہے۔

منیر صادق نے کہا کہ کسی میں جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ جج کو بلیک میل کرے۔ عدالت پاناما طرز کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنا سکتی ہے۔ جے آئی ٹی عدالت نے اپنی معاونت کے لیے بنائی تھی لیکن اس سے کم از کم سچائی سامنے تو آ گئی تھی۔

منیر صادق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کے خلاف دباؤ کے تحت فیصلے کا الزام عائد کیا گیا۔ مریم نواز نے مزید ثبوتوں کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جج نے کہا ہے کہ ناصر بٹ سے میری شناسائی ہے۔ دباؤ ہوتا تو ایک کیس میں بری نہ کرتا۔

اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے جج کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملاقات کی۔ فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے تحت تمام فریقین کے جواب لیے جائیں۔ توہینِ عدالت کی کارروائی ضروری ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت میں ریمارکس دیے کہ جو دھول ابھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا بھی ہے۔ عدلیہ کو جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے۔

عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ کا ہے۔ دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے۔ جج کے کنڈکٹ پر قانون موجود ہے۔ نواز شریف کے خلاف فیصلہ درست ہے یا غلط، فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کرے گی۔

وکلا کے دلائل سننے کے بعد بینچ نے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

احتساب عدالت ویڈیو اسکینڈل

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے چھ جولائی کو ایک نیوز کانفرنس میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی۔

اس ویڈیو میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور دیگر افراد سے ملاقاتیں کر رہے تھے جبکہ ویڈیو میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ ان پر کیس میں سزا سنانے کے حوالے سے دباؤ تھا۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے ایک بیانِ حلفی میں الزام عائد کیا ہے کہ انہیں بلیک میل کیا گیا تھا اور 16 سال پرانی ایک ویڈیو کی بنا پر ان کی نوازشریف سے جاتی امرا میں ملاقات کرائی گئی۔

جج ارشد ملک نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کے صاحب زادے حسین نواز نے مدینہ میں ملاقات میں انہیں 50 کروڑ روپے اور بیرونِ ملک اہل خانہ سمیت سیٹل کرانے کی پیشکش کی۔

سپریم کورٹ میں اس بارے میں تین مختلف درخواستیں دائر کی گئی ہیں جنہیں عدالت نے یکجا کرکے سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG