رسائی کے لنکس

جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے حکم جاری کیا ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے وزارتِ قانون کو لکھے گئے خط اور ارشد ملک کے حلفیہ بیان کو نواز شریف کی اپیل کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جمعے کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار نے وزارتِ قانون کو خط لکھ کر ہدایت کی ہے کہ جج ارشد ملک کی خدمات واپس لے لی جائیں۔

ارشد ملک کو ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں جج تعینات کیا گیا تھا اور اب ان کی خدمات واپس پنجاب کے حوالے کردی جائیں گی۔

اس فیصلے سے کچھ دیر قبل جج ارشد ملک نے ویڈیو اسکینڈل پر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کر مریم نواز کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا تھا۔

محمد ارشد ملک نے مبینہ ویڈیو اسکینڈل پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملاقات کی تھی اور عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس کے نام خط ان کے حوالے کیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے خط کی صورت میں بیانِ حلفی جمع کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جج نے مسلم لیگ (ن) کی مبینہ دھمکیوں اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے رشوت کی پیشکش کا بھی اپنے خط میں تذکرہ کیا ہے جبکہ خط کے ساتھ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ان کی جاری کردہ پریس ریلیز بھی منسلک کی گئی ہے۔

جج ارشد ملک سے ملاقات کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات کرکے انھیں ارشد ملک کے خط اور بیان حلفی سے آگاہ کیا۔

اس خط کے کچھ ہی دیر بعد قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ چوں کہ جج ارشد ملک وزارتِ قانون کے ماتحت ہیں لہذا اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی خدمات واپس وزارتِ قانون کے سپرد کر رہی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ارشد ملک کا بیانِ حلفی اور دیگر دستاویزات نوازشریف کی اپیل کے ساتھ منسلک کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

جج ارشد ملک نے گزشتہ روز قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق سے بھی ملاقات کی تھی جو ان کی ایک ہفتے میں چیف جسٹس سے دوسری ملاقات تھی۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ اپنے والد کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائیں گی۔
مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ اپنے والد کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائیں گی۔

ویڈیو اسکینڈل ہے کیا؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے چند روز قبل لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہیں کہتے سنا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے تھے اور انہیں بلیک میل کرکے اور دباؤ ڈال کر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دینے پر مجبور کیا گیا۔

اس ویڈیو میں جج ارشد ملک مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے عہدیدار ناصر بٹ نامی شخص کے ساتھ موجود تھے جنہوں نے یہ گفتگو ریکارڈ کرلی تھی۔ حکومت نے ان ویڈیوز کا فرانزک آڈٹ کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد ازاں حکومت نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ خود ہی اس معاملے کا کوئی فیصلہ کرے۔

ویڈیوز سامنے آنے کے ایک روز بعد ارشد ملک نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے مریم نواز کے الزامات کی تردید کی تھی اور ویڈیو کو حقائق کے منافی قرار دیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک۔

اب نواز شریف کی سزا کا کیا ہوگا؟

جج ارشد ملک کو ذمہ داری سے ہٹائے جانے کے اعلان کے بعد ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ اب نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کا کیا ہوگا۔

نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے لیے عدالتی کوریج کرنے والے صحافی اویس یوسف زئی کہتے ہیں کہ ماضی میں ایگزیگٹ جعلی ڈگری کیس میں جج عبدالقادر میمن کے رشوت لینے کے اعتراف کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی درخواست پر ایگزیگٹ کے مالک شعیب شیخ کی بریت منسوخ کردی گئی تھی اور ٹرائل دوبارہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

دوبارہ ٹرائل کے بعد شعیب شیخ گرفتار ہوا تھا اور پھر اسے سزا سنائی گئی تھی۔ ان کے بقول نواز شریف کے کیس میں بھی اب جج کے مؤقف کو بظاہر تسلیم نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ان کی خدمات واپس کردی ہیں۔

اویس یوسف زئی کے خیال میں نوازشریف کے کیس میں بھی امکان ہے کہ ان کی اپیل میں اب یہ نکتہ شامل ہو جائے گا کہ جج کا کردار تسلی بخش نہیں تھا اور ان کی طرف سے دیا گیا فیصلہ بھی دباؤ کا شکار نظر آرہا ہے۔ لہذا نوازشریف کی سزا کالعدم قرار دیکر انہیں رہا کیا جاسکتا ہے اور ری ٹرائل کا حکم بھی جاری ہو سکتا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کا ردِ عمل

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جج کو فارغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلٰی عدلیہ نے حقائق کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایسے میں جج کے غلط فیصلے کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا اعلٰی عدلیہ نواز شریف کے خلاف فیصلے کو فوری طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے، انھیں رہا کرنے کا حکم دے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، آج ان کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں یہ سزا کاٹ رہے ہیں اور انھوں نے سزا کے خلاف اعلٰی عدلیہ میں اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔

XS
SM
MD
LG