رسائی کے لنکس

جسٹس مظاہر نقوی کے اہم فیصلے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس؛ کب کیا ہوا؟


سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جسٹس نقوی نے بدھ کو صدرِ پاکستان کو بھیجے گئے استعفے میں کہا تھا کہ ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دے سکیں۔

سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے مستعفی ہونے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے ہے۔ 1998 میں وہ ہائی کورٹ اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔

جسٹس نقوی 19 فروری 2010 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ 2016 میں انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے مس کندکٹ پر شوکاز نوٹس ملا۔

اس نوٹس کے جواب میں جسٹس نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کیا۔ اسی سال اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے ان کی سنیارٹی تبدیل کی گئی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔

جسٹس نقوی نے 2017 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس بھی سنا۔ اسی سال انہوں نے جماعت االدعوۃ کے رہنما حافظ سعید کا کیس سننے سے معذرت کر لی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔

سال 2018 میں نواز شریف کی طرف سے مبینہ طور پر عدلیہ مخالف تقاریر کے کیس میں انہوں نے پیمرا کو نواز شریف کی تقاریر ٹی وی پر نشر کرنے سے روک دیا تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے 13 جنوری 2020 میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی نہ صرف تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا بلکہ اس میں ہونے والی تمام تر کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف کیا کیس بنا؟

سن 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ ان آڈیوز میں سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی مبینہ طور پر جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ بات کر رہے تھے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر سے مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہر نقوی پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

جسٹس نقوی نے ریفرنس میں عائد کیے گئے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا۔ جسٹس نقوی کا کہنا تھا کہ اُن کے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔

جسٹس مظاہر کے خلاف عدالتی کارروائی

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف چلنے والے ریفرنس میں تیزی موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے بعد آئی اور 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا اور 14 روز میں جواب طلب کر لیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل تھے۔

گیارہ نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانب دارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

بیس نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیر عدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے 15 دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چار دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرِ ثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی۔

لیکن 13 دسمبر کو جسٹس نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

پندرہ دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی جس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی نے اپنا تفصیلی جواب سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا تھا جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات سے انکار کیا تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب چند روز قبل جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔

ماضی میں کن ججز نے استعفیٰ دیا؟

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی عہدے سے مستعفی ہونے والے سپریم کورٹ کے پہلے جج نہیں ہیں، ان سے پہلے سپریم کورٹ کے چھ اور ہائی کورٹس کے 10 ججز نے مختلف ادوار میں مختلف وجوہات کی بنا پر استعفی دیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے والے ساتویں جج ہیں۔ 2016 میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔

ان پر بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس متنازع تعیناتیوں کا الزام تھا جو بعد میں سپریم کورٹ میں بھی گیا اور عدالتِ عظمی نے ان تمام تعیناتیوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اس سے قبل سال 2001 میں بے نظیر بھٹو کرپشن کیس میں جانب داری کے الزام پر جسٹس راشد عزیز نے استعفی دیا۔

تین نومبر 2007 کو سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او حکم نامے کے تحت حلف اٹھا نے پر سپریم کورٹ کے جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد استعفی دے دیا۔

سال 2001 میں ہی لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم نے 1999 میں بے نظیر بھٹو کرپشن کیس میں جانب دار ہونے کے الزام پر عہدہ چھوڑ دیا۔

اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان نے پاناما پیپرز میں نام سامنے آنے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیرِ سماعت ہونے پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔

فروری 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظہر اقبال سندھو کرپشن الزامات کے بعد مستعفی ہوئے۔ جسٹس مظہر اقبال پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن الزامات کے حوالے سے ریفرنس زیر سماعت تھا۔

مئی 2015 میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد تسنیم ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفی ہوئے۔

پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امان اللہ خان یاسین زئی جسٹس نادر خان ، جسٹس اختر زمان ملغانی، جسٹس احمد خان لاشاری اور جسٹس مہتہ کیلاش ناتھ سمیت مستعفی ہوئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG